جب ہم زمین کی بقا، ماحولیاتی توازن اور انسانی زندگی کی حفاظت کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلا قدم “شجر کاری” یعنی درخت لگانا ہے۔ یہ محض زمین میں ایک پودا گاڑ دینا نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے خواب کی آبیاری ہے جس میں صاف ہوا، میٹھا پانی، ٹھنڈی چھاؤں، اور زندگی کی روانی ہو۔
درخت نہ صرف فطرت کا حسین تحفہ ہیں بلکہ یہ ہماری بقاء کے ضامن بھی ہیں۔ شجر کاری ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف ماحول کو خوبصورت بناتا ہے بلکہ کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب ہم درخت لگاتے ہیں، ہم دراصل ہوا میں آکسیجن کا ذخیرہ، بارش کے امکانات، زمین کی زرخیزی، اور جانوروں کے لیے مسکن فراہم کرتے ہیں۔
درخت وہ خاموش محافظ ہیں جو ہمیں دھوپ سے سایہ، ہواؤں سے پناہ، آندھیوں سے تحفظ، اور بارشوں سے پیاس بجھانے کا ذریعہ دیتے ہیں۔ ایک درخت ہزاروں جانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ پرندے اس پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں، بچے اس کے نیچے کھیلتے ہیں، بزرگ اس کے سائے میں آرام کرتے ہیں، اور بیمار اس کی آکسیجن سے شفا پاتے ہیں۔
شجر کاری کا تعلق صرف ماحولیات تک محدود نہیں، بلکہ یہ معیشت، صحت، خوراک، اور موسموں پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک درخت جہاں قدرتی حسن کا اضافہ کرتا ہے، وہیں لکڑی، پھل، سبز چارہ، دواؤں اور دیگر صنعتوں کے لیے خام مال بھی فراہم کرتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں شجر کاری کو قومی منصوبوں کا حصہ بناتی ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ سرسبز ماحول ہی ایک خوشحال قوم کی علامت ہے۔
بدقسمتی سے، ہماری دنیا میں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ کٹائی، آگ، تعمیراتی منصوبے اور آبادی کا پھیلاؤ اس بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔ نتیجتاً، ہمیں ماحولیاتی تبدیلی، گرمی کی شدت، سیلاب، خشک سالی اور ہوا کی آلودگی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی ذاتی، سماجی اور قومی ذمہ داری نبھاتے ہوئے شجر کاری کو فروغ دینا ہوگا۔
شجر کاری نہ صرف آج کی ضرورت ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی امانت بھی ہے۔ ایک درخت جو آج ہم لگاتے ہیں، کل ہمارے بچوں کے لیے زندگی کا سامان بنے گا۔ ہر شخص اگر سال میں کم از کم ایک درخت لگا کر اس کی حفاظت کرے، تو یہ چھوٹا سا قدم، وقت کے ساتھ ایک بہت بڑا انقلاب بن سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے۔”
(مسند احمد)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ درخت لگانا نہ صرف دنیاوی فائدے کا ذریعہ ہے بلکہ ایک روحانی اور ثواب کا کام بھی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں، محلوں، سکولوں، دفاتر اور گلی کوچوں میں درخت لگائیں۔ حکومتیں اگر اس کو سنجیدگی سے لیں، تو قومی سطح پر ہر سال لاکھوں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کو شجر کاری کا شعور دینا، میڈیا میں اس کا فروغ، اور مساجد سے اس کی تلقین، یہ سب ہمارے ذمہ ہیں
شجر کاری درحقیقت زندگی سے محبت کا نام ہے۔ یہ صرف آج کا نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔ جو درخت ہم آج لگائیں گے، وہ کل نہ صرف ہماری فضا کو صاف رکھیں گے بلکہ ہمارے اخلاقی، سماجی اور اقتصادی مستقبل کو بھی محفوظ بنائیں گے۔
آئیے، وعدہ کریں کہ ہم ہر سال کم از کم ایک درخت لگائیں گے، اور اس کی حفاظت کریں گے۔ کیونکہ ایک پودا، ایک زندگی ہے۔ اور زندگی کو سنوارنا، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

