گوہرآباد، دیامر — ڈیامر کے گوہرآباد میں واقع میٹرنل اینڈ چائلڈ ہیلتھ (ایم سی ایچ) سینٹر میں ایک لیڈی ہیلتھ وزٹر (LHV) کے ساتھ جنسی ہراسانی اور جسمانی تشدد کا ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ متاثرہ خاتون، جو ضلع غذر سے تعلق رکھتی ہیں، کو ہراساں کرنے اور مارپیٹ کرنے کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گیا۔
مقامی حکام نے ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، لیکن اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ یہ واقعہ خطے میں خواتین کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
عوامی غم و غصہ اور انصاف کا مطالبہ
اس واقعے نے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ہے، جو ملزم کے خلاف فوری اور سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قسم کی گھناونی حرکات کو ہرگز برداشت نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب عوامی خدمت کے شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو نشانہ بنایا جائے۔
کارکنان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جنسی تشدد اور ہراسانی کے معاملات میں کسی قسم کی نرمی یا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملزم کو سخت سزا دی جانی چاہیے تاکہ آنے والے وقتوں میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے اور متاثرہ خاتون کو انصاف مل سکے۔
خواتین کی حفاظت: ایک بڑا چیلنج
یہ واقعہ پیشہ ورانہ ماحول میں کام کرنے والی خواتین، خاص طور پر صحت کے شعبے سے وابستہ خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ کارکنان کا مطالبہ ہے کہ کام کی جگہوں پر حفاظتی اقدامات کو بہتر بنایا جائے اور ہراسانی کے خلاف قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
مقامی کمیونٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تحقیقات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور شفافیت اور احتساب کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین کو بھی اس واقعے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، کیونکہ یہ خطے میں صنفی مساوات اور خواتین کی حفاظت کے حوالے سے بڑے چیلنجز کو ظاہر کرتا ہے۔
فوری کارروائی کا مطالبہ
عوامی دباؤ بڑھنے کے ساتھ ہی حکام پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ملزم کو جلد از جلد گرفتار کریں اور منصفانہ مقدمہ چلائیں۔ یہ واقعہ پاکستان کے انصاف کے نظام اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا ایک اہم امتحان ہے۔
— رپورٹنگ: دی آزادی ٹائمز، مقامی ذرائع کے حوالے سے
(یہ ایک ڈویلپنگ اسٹوری ہے۔ مزید معلومات دستیاب ہونے پر اپ ڈیٹس شیئر کی جائیں گی۔)
ایڈیٹرز کے لیے نوٹ: یہ خبر مقامی تصدیق شدہ رپورٹس اور حقوق کی تنظیموں کے بیانات پر مبنی ہے۔ مزید تحقیقات تک متاثرہ خاتون کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے نام اور کچھ مخصوص تفصیلات کو چھپایا گیا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں