انرجی اور ٹیکنالوجی رپورٹر
لندن – برطانوی سائنسدانوں نے ایک انقلابی ایجاد پیش کرتے ہوئے “ہیرے والی بیٹری” تیار کی ہے جو ری سائیکل شدہ جوہری فضلے سے ہزاروں سال تک بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خلائی تحقیق، میڈیکل امپلانٹس اور دور دراز کے نظاموں کے لیے طویل مدتی توانائی کا حل پیش کرتی ہے۔
ہیرے والی بیٹری کیسے کام کرتی ہے؟
یہ منفرد بیٹری تین اہم اجزاء پر مشتمل ہے:
✔ ری سائیکل شدہ جوہری گرافائٹ (بند ہو چکے ری ایکٹرز سے)
✔ لیب میں تیار شدہ ہیرے جو تابکاری کو بجلی میں بدلتے ہیں
✔ بیٹا وولٹائک ٹیکنالوجی جو ریڈیو ایکٹو ڈیکی کے ذریعے کرنٹ پیدا کرتی ہے
روایتی بیٹریوں کے برعکس، اس نظام کو ری چارج کرنے کی ضرورت نہیں – یہ 5,700 سال تک (کاربن کے نصف حیات کے برابر) خود بخود کام کرتا رہے گا۔
خصوصیات اور حفاظت
ابتدائی نمونوں میں درج ذیل خصوصیات دیکھی گئی ہیں:
- ناقابل یافتہ طویل زندگی: تمام موجودہ بیٹری ٹیکنالوجیز سے کہیں زیادہ
- کم تابکاری: انسانی جسم سے خارج ہونے والی تابکاری سے بھی کم
- زیرو مینٹیننس: مکمل سیلڈ، غیر زہری ڈیزائن
- ماحول دوست حل: جوہری فضلے کو مفید توانائی میں بدل دیتا ہے
“ہم ایک عالمی مسئلے کو صاف توانائی میں تبدیل کر رہے ہیں،” یونیورسٹی آف برسٹل کے سربراہ محقق ڈاکٹر اولیور سکاٹ کا کہنا ہے۔ “جوہری مواد کا صرف ایک گرام پیس میکر کو 28,000 سال تک چلا سکتا ہے۔”
ممکنہ استعمالات
یہ ٹیکنالوجی درج ذیل شعبوں میں انقلاب لا سکتی ہے:
🚀 خلائی تحقیق: بین السیارہ مشنز کے لیے طویل مدتی بجلی
⚕️ میڈیکل آلات: زندگی بھر چلنے والے الیکٹرانک امپلانٹس
📡 دور دراز سینسرز: صدیوں تک انفراسٹرکچر کی نگرانی
🌍 آفات زدہ علاقے: مستقل بیک اپ پاور سپلائی
آگے کے چیلنجز
اگرچہ یہ ٹیکنالوجی بہت امید افزا ہے، لیکن اس کو بڑے پیمانے پر متعارف کروانے کے لیے درج ذیل رکاوٹیں ہیں:
- فی الحال کم پاور آؤٹ پٹ (صرف مائیکرو الیکٹرانکس کے لیے موزوں)
- جوہری مواد کے استعمال کے لیے ریگولیٹری منظوریاں
- مصنوعی ہیرے تیار کرنے کی لاگت
یوکے اٹامک انرجی اتھارٹی نے اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے 4.2 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کی ہے، جبکہ 2026 تک پائلٹ پروڈکشن کی توقع ہے۔
انقلابی توانائی کے حل کے بارے میں تازہ معلومات حاصل کرنے کے لیےدی آزادی ٹائمز کو فالو کریں۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

