کٹھمنڈو | نیپال — 8 ستمبر 2025 کو کٹھمنڈو، پوکھرا اور بیرات نگر کی سڑکیں میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں جب ہزاروں نوجوان مظاہرین نے دھرنوں، ریلیوں اور فلیش مارچز کا آغاز کیا۔ ان میں بڑی تعداد اسکول اور یونیورسٹی کے طلبہ کی تھی، جن میں سے کئی اب بھی اپنی یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔ یہ منظر احتجاج کی خالصتاً “نسلیاتی نوعیت” کی علامت بن گیا۔ ان کے نعرے “کرپشن بند کرو، سوشل میڈیا نہیں” اور “ہمیں آزادی دو، خاموشی نہیں” نیپال کی گلیوں اور چوراہوں میں گونجتے رہے۔
خلاصہ
-
سبب: 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی۔
-
ہلاکتیں: پولیس کریک ڈاؤن میں 19 ہلاک، 100 سے زائد زخمی۔
-
حکومتی ردعمل: پابندی ختم، معاوضے کا اعلان، انکوائری کمیٹی تشکیل۔
-
سیاسی اثرات: وزیراعظم کے پی شرما اولی کا استعفیٰ۔
-
اہمیت: نیپال میں پہلی بار Gen Z ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرا۔
ابتدائی طور پر حکومت نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ڈنڈوں اور شیلڈز سے لیس فسادی پولیس کو تعینات کیا، مگر جیسے جیسے احتجاج بڑھا، فورسز نے آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ بعد ازاں کئی مقامات پر براہِ راست گولیوں کا استعمال کیا گیا۔
طبی حکام کے مطابق کم از کم 19 نوجوان مارے گئے، جن میں زیادہ تر کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان تھیں، جبکہ 100 سے زائد زخمی حالت میں اسپتال پہنچے۔ مقامی صحافیوں نے بتایا کہ زخمیوں کو موٹر سائیکلوں پر اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا، والدین گھبراہٹ میں اپنے بچوں کو تلاش کر رہے تھے، اور سوشل میڈیا پر پابندی کے باوجود وی پی این کے ذریعے خون میں لت پت نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو رہی تھیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے نیپالی حکومت پر “پرامن مظاہرین کے خلاف غیر قانونی اور حد سے زیادہ طاقت کے استعمال” کا الزام لگایا، جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
حکومت کی یو ٹرن پالیسی
عوامی دباؤ اور عالمی تنقید کے باعث حکومت کو چند گھنٹوں کے اندر ہی پابندی ختم کرنا پڑی، اور فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب، واٹس ایپ سمیت دیگر پلیٹ فارمز دوبارہ بحال کر دیے گئے۔ لیکن عوامی غم و غصے کو یہ اقدام ٹھنڈا نہ کر سکا۔
وزیراعظم کے پی شرما اولی نے شدید دباؤ کے باعث استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے اور زخمیوں کے علاج کا اعلان کیا، جبکہ 15 روزہ انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیا گیا۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ عوام ان اعلانات کو “سیاسی نقصان پر مرہم” سے زیادہ نہیں سمجھ رہے۔
یہ احتجاج کیوں اہم ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ صرف سوشل میڈیا پابندی کے خلاف تحریک نہیں بلکہ نیپال کا پہلا Gen Z انقلاب ہے، جو بدعنوانی، مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام کے خلاف عوامی ردعمل ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ فیصلہ سازی سے باہر رکھے جانے پر مایوس ہیں اور اب شفافیت، احتساب اور اپنے مستقبل پر اختیار چاہتے ہیں۔
یہ تحریک لیڈروں کے بجائے خود عوامی طور پر اور ڈیجیٹل رابطوں کے ذریعے منظم ہو رہی ہے، جو 21ویں صدی کے احتجاج کے نئے انداز کی عکاسی کرتی ہے۔
علاقائی اور عالمی اثرات
نیپال کی موجودہ صورتِ حال پورے خطے کے لیے سبق ہے کہ ڈیجیٹل آزادیوں پر پابندیاں اور ناقص حکمرانی کس طرح بڑے سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں Gen Z کے ابھرتے ہوئے احتجاجی کلچر سے روایتی سیاست پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
عالمی سطح پر ماہرین نیپال کے واقعات کو ہانگ کانگ، ایران اور سری لنکا میں نوجوانوں کی تحریکوں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ Gen Z اب عالمی سیاست میں تبدیلی کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

