Advertisement

ہیڈلائن

کالمز / بلاگ

اداریہ: حسن کی تعریف — شاعری میں جمالیات کا سفر

انسانی تہذیب نے ہمیشہ حسن کو تخلیق، فن، اور شاعری کا مرکز بنایا ہے۔ خواہ وہ فطرت کا جمال ہو یا انسانی روپ کی دلکشی، شاعروں نے اسے الفاظ کے موتیوں میں پرو کر امر کر دیا۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اردو شاعری کے چند منتخب اشعار کے ذریعے حسن کے اس لازوال سفر کو اجاگر کریں گے، جو نہ صرف ظاہری خوبصورتی بلکہ باطنی رُوحانیت کو بھی بیان کرتے ہیں۔

حسن: فطرت کا آئینہ یا انسانی تخلیق؟

حسن کی تعریف کا سوال ہر دور میں متنازع رہا ہے۔ کچھ کے لیے یہ فطرت کا عطا کردہ تحفہ ہے، تو کچھ اسے انسانی ذہن کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ مگر شاعری نے ہمیشہ دونوں پہلوؤں کو یکجا کیا ہے۔ جیسے میر تقی میر فرماتے ہیں:

“حسنِ بے پروا کو پروا ہو تو کیا ہو
آئینہ ٹوٹے تو پھر جوڑا نہیں جاتا”

یہ شعر حسن کی نزاکت اور اس کے فنا ہونے کے خوف کو بیان کرتا ہے۔ آئینہ ٹوٹنے کی علامت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حسن کا اصل جوہر اس کی “بے پروائی” میں ہے۔

حسن اور محبت: دو لازم و ملزوم

حسن کو محبت سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ احمد فراز نے اسی رشتے کو ان الفاظ میں سمویا:

“تجھے دیکھا تو یہ جانا کہ محبت ہی محبت ہے
ورنہ دنیا میں کوئی چیز بھی کمی تو نہیں ہے”

یہاں حسن محبت کا محرک بنتا ہے، جو انسان کو دنیا کی تمام کمیوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

حسن کی رُوحانیت: اقبال کا فلسفہ

علامہ اقبال نے حسن کو کائنات کے اسرار سے جوڑا۔ ان کے نزدیک حسن صرف ظاہری چمک دمک نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے:

“حسنِ ازل دیکھا ہے تو محوِ حیرت ہو کے رہ جا
یہ نکتہ ہے اسرارِ کائنات کا خاموش”

یہ شعر حسن کو “ازل” سے منسلک کرتا ہے، جو کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی کنجی بن جاتا ہے۔

جدید دور میں حسن کی تعبیر

آج کے دور میں جب حسن کو “فیلٹرز” اور “ایجنگ کریمز” کی پیمائش سے نوازا جاتا ہے، پروین شاکر کا یہ شعر ایک تنقیدی پیغام دیتا ہے:

“تم جو ملے تو یوں لگا جیسے خزاں کے بعد
بہار آئی ہو کوئی خوابیدہ کلی کھلی ہو”

یہاں حسن کو فطرت کے تسلسل سے جوڑا گیا ہے، جو مصنوعی پن کے بجائے تازگی اور قدرتی خوبصورتی کی علامت ہے۔

حسن کی لازوالیت: جون ایلیا کی نظر میں

جون ایلیا نے حسن کو لمحوں کی عارضی چمک کے بجائے ایک “عمر” قرار دیا:

“وہ جو ایک لمحے کو بھی میرا ہو گیا
میں نے اس لمحے کو عمر بنا دیا”

یہ شعر حسن کی لازوالیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک لمحہ بھی اگر حقیقی حسن سے وابستہ ہو، تو وہ ہمیشہ کی یادگار بن جاتا ہے۔

نتیجہ: حسن کا سفر ادب سے سماج تک

حسن کی تعریف صرف شاعری تک محدود نہیں۔ یہ سماجی رویوں، ثقافتی اقدار، اور انسانی تعلقات کو بھی تشکیل دیتا ہے۔ جیسے ناصر کاظمی کہتے ہیں:

“وہ جو ہم میں تم میں سِر حد تھا اِک حسین سے
اُس نے اک نظر کیا اور حدیں مٹ گئیں سب”

حسن کی یہ طاقت ہے کہ وہ سماجی تقسیم اور نفسیاتی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔

آج کے دور میں، جب حسن کو “پرفیکشن” کے پیمانوں میں قید کیا جا رہا ہے، اردو شاعری کے یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حسن کی حقیقی تعریف وہی ہے جو دل سے نکلے اور دلوں تک پہنچے۔

یہ بھی پڑھیں:  مقبول ہمارا زندہ ہے

نوٹ: یہ اداریہ کشمیر پر مبنی بین الاقوامی نیوز ویب سائٹ کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں پیش کردہ اشعار اور خیالات مصنف کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں۔

📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں

spot_imgspot_img