اسلامی عقائد میں روحوں کے معاملات ہمیشہ سے لوگوں کی دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان یہ مانتے ہیں کہ ہر جمعرات کو مرحومین کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ان کے اہلِ خانہ ان کے لیے صدقہ و خیرات یا دعا کر رہے ہیں یا نہیں۔ لیکن کیا یہ عقیدہ حقیقت پر مبنی ہے؟ کیا اسلام میں اس کی کوئی مستند دلیل موجود ہے؟ اس مضمون میں ہم اس حوالے سے قرآن و حدیث اور علماء کی آراء کی روشنی میں تفصیل سے جائزہ لیں گے۔
جمعرات کو روحوں کی واپسی کا عقیدہ
یہ عقیدہ مختلف مسلم معاشروں میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے کہ مرنے والوں کی روحیں جمعرات کو دنیا میں اپنے گھروں کا دورہ کرتی ہیں۔ اس عقیدے کے تحت بہت سے لوگ جمعرات کے دن خیرات، فاتحہ خوانی، یا قبر پر حاضری دیتے ہیں تاکہ مرحومین کو فائدہ پہنچے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ روحیں گھر آ کر دیکھتی ہیں کہ ان کے پیارے ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، اور اگر انہیں کچھ نہ ملے تو وہ مایوس ہو کر واپس چلی جاتی ہیں۔
یہ تصور خاص طور پر برصغیر میں زیادہ مشہور ہے، اور کئی لوگ اس کی نسبت مختلف روایات یا بزرگوں کے اقوال سے کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں موجود ہے؟
کیا جمعرات کو روحیں گھر آتی ہیں؟ اسلام کی روشنی میں
1. قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید میں روحوں کے دنیا میں واپس آنے کے بارے میں کوئی واضح ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے، تاکہ میں نیک عمل کر سکوں، جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ہرگز نہیں! یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اور ان کے پیچھے ایک پردہ (برزخ) ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔”
(سورہ المؤمنون: 99-100)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو وہ برزخ میں چلا جاتا ہے، اور قیامت تک واپس دنیا میں نہیں آ سکتا۔ لہٰذا، یہ کہنا کہ روحیں ہر جمعرات کو گھروں میں آتی ہیں، قرآن سے ثابت نہیں ہے۔
2. کیا جمعرات کو روحیں گھر آتی ہیں؟ احادیث کی روشنی میں
حدیث کی کتب میں بھی کوئی ایسی مستند حدیث موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ روحیں جمعرات کے دن گھروں میں آتی ہیں۔ تاہم، بعض ضعیف روایات میں ذکر ملتا ہے کہ فوت شدہ افراد کے اعمال کا حساب ہر جمعرات کو کیا جاتا ہے اور ان کے لیے دعا کرنے سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روحیں خود واپس آتی ہیں۔ بلکہ، حدیث میں صرف یہ ذکر ہے کہ مرنے والوں کو ان کے لیے کی گئی دعاؤں اور صدقہ و خیرات کا ثواب پہنچایا جاتا ہے، جس سے ان کی روح کو سکون ملتا ہے۔
علماء کی آراء
علماء کرام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ جمعرات کے دن روحوں کے گھروں میں واپس آنے کا تصور مستند اسلامی تعلیمات سے ثابت نہیں ہے۔ کچھ اہم فتاویٰ درج ذیل ہیں:
-
دارالافتاء جامعہ بنوریہ کے مطابق:
“یہ کہنا کہ جمعرات کے دن روحیں گھروں میں آتی ہیں، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔“ -
دارالعلوم دیوبند کے مطابق:
“یہ عقیدہ کہ روحیں ہر جمعرات کو گھروں میں آتی ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کو دیکھتی ہیں، محض عوامی روایت ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔“ -
مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں:
“برزخ میں روحوں کی حالت ہمارے فہم سے باہر ہے۔ لیکن یہ عقیدہ کہ وہ جمعرات کو گھروں میں آتی ہیں، بے بنیاد ہے۔“
تو کیا مرحومین کے لیے کچھ کرنا چاہیے؟
اگرچہ روحوں کے گھروں میں آنے کا کوئی ثبوت نہیں، لیکن اسلام میں مرنے والوں کے لیے دعا اور صدقہ و خیرات کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔” (مسلم، حدیث 1631)
لہٰذا، ہمیں جمعرات ہو یا کوئی اور دن، اپنے مرحومین کے لیے دعا، قرآن خوانی، اور صدقہ و خیرات ضرور کرنا چاہیے تاکہ ان کی آخرت کی بہتری ہو۔
جمعرات کے دن روحوں کے گھروں میں آنے کا عقیدہ اسلامی تعلیمات سے ثابت نہیں ہے۔ قرآن و حدیث اور علماء کی آراء کے مطابق، یہ محض ایک عوامی تصور ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ تاہم، اپنے پیاروں کے لیے دعا کرنا، خیرات دینا، اور ان کی مغفرت کی دعا مانگنا ایک بہترین عمل ہے، جس سے وہ ضرور مستفید ہوتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ غیر مستند روایات پر عمل کرنے کے بجائے مستند اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں اور مرحومین کے لیے بہترین طریقے سے دعا اور خیرات کریں، جو ان کے لیے واقعی مفید ہو۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں