مظفرآباد – پاکستان میں غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کی حکومتی مہم کے تحت آزاد جموں و کشمیر (AJK) سے بھی ہزاروں افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے کشمیری معاشرے کا حصہ رہنے والے یہ مہاجرین اب خاموشی سے، لیکن دکھ بھرے دل کے ساتھ، رخصت ہو رہے ہیں۔ ان کی جدائی کی کہانیاں اور جذبات سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک درد بھرا پیغام افغان شہری عامر خان نے اپنی فیس بک پوسٹ میں شیئر کیا، جنہوں نے آزاد کشمیر میں چالیس سال گزارے:
“چالیس سال بعد آج ہم نے بھی رختِ سفر باندھ لیا، وطن افغانستان کی طرف۔ کشمیریوں سے ہمارا رشتہ دکھ، غلامی، محکومی، جبر کا ہے۔ ہمارے دکھ درد سانجھے ہیں، ہمارا بچپن اکٹھا گزرا، لیکن آج ان مصنوعی لکیروں اور شناختوں نے ہمیں جدا کر دیا۔ ہم دوبارہ ملیں گے ایک نئے جہان، غیر طبقاتی انسانی سماج میں۔ دکھی دل کے ساتھ الوداع ساتھیوں، دوستوں، بھائیوں، دعاؤں میں یاد رکھنا۔”
یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر کشمیری صارفین میں وائرل ہو گئی، جنہوں نے اس جذباتی پیغام کو شیئر کرتے ہوئے افغان مہاجرین کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔ صارفین نے دہائیوں پر محیط تعلق، مشترکہ بچپن اور انسانیت کے رشتے کو اجاگر کیا۔
مقامی رپورٹس کے مطابق، مظفرآباد، کوٹلی، راولا کوٹ اور دیگر اضلاع سے درجنوں افغان خاندان واپس افغانستان روانہ ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے یہاں کاروبار کیا، مزدوری کی، شادیاں کیں اور بچوں کو تعلیم دلوائی۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر افغان اور کشمیری پرچموں کی تصویریں بھی وائرل ہو رہی ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ یہ رشتہ صرف سرحدی شناخت سے نہیں بلکہ دلوں کے رشتے سے جُڑا ہے۔
افغانستان میں واپس جانے والے ان خاندانوں کے لیے ننگرہار اور دیگر سرحدی علاقوں میں عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، واپسی کرنے والے مہاجرین کو خدشہ ہے کہ ان کے لیے روزگار، تحفظ اور بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ہوگا۔
آزاد کشمیر سے افغان مہاجرین کی واپسی صرف ایک سیاسی یا قانونی قدم نہیں، بلکہ یہ انسانی جذبات، جدائی، اور مشترکہ یادوں کی کہانی ہے۔ عامر خان کا پیغام اسی دکھ کی ترجمانی کرتا ہے — اور یاد دلاتا ہے کہ ریاستی پالیسیوں کے پیچھے اصل چہرے انسانوں کے ہوتے ہیں۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

