اداریہ | از سید نذیر گیلانی
25 اپریل 2025
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیے جانے کا حالیہ اعلان ایک سنگین اور خطرناک پیش رفت ہے۔ لیکن اس معاہدے کے معطل ہونے کے اثرات صرف پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہتے، بلکہ یہ مسئلہ براہ راست جموں و کشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق اور خودمختاری سے بھی جُڑا ہوا ہے۔
یہ پانی، جو ریاست جموں و کشمیر کے پہاڑوں، جھیلوں، چشموں اور دریاؤں سے نکلتا ہے، نہ بھارت کا ہے اور نہ پاکستان کا۔ یہ پانی کشمیری عوام کی امانت ہے۔ بھارت اور پاکستان ان وسائل کے ٹرسٹی (امین) ہیں، مالک نہیں۔ پانی ریاست کے قدرتی وسائل میں شمار ہوتا ہے اور ان کی نگرانی و نگہداشت کی ذمہ داری ریاستی باشندوں یعنی کشمیریوں کی ہے۔
پانی تک رسائی: ایک انسانی حق
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2010 میں ایک تاریخی قرارداد منظور کی جس کے مطابق پانی اور صفائی (Sanitation) تک رسائی کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے بھی پانی تک رسائی کو بین الاقوامی معاہدہ برائے اقتصادی، سماجی و ثقافتی حقوق (ICESCR) کے آرٹیکل 11 کے تحت ایک لازمی حق قرار دیا۔
اس تناظر میں، اگر سندھ طاس معاہدے کے وقت دونوں ممالک انصاف (Equity) پر قائم رہتے اور کشمیریوں کے پانی پر حقِ تولیت (Stewardship) کو تسلیم کرتے، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔
معاہدہ کشمیریوں کو نظرانداز کرتا ہے
پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھا اور کشمیریوں کے تاریخی، جغرافیائی اور آئینی دعووں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ سندھ طاس معاہدے میں ریاست جموں و کشمیر کو فریق ہی نہیں بنایا گیا، جبکہ اصل پانی اور اس کے ذخائر اسی ریاست میں موجود ہیں۔
یہ ایک تاریخی ناانصافی ہے کہ پانی پر جس قوم کا حقِ وراثت سب سے زیادہ ہے، وہی قوم اس معاہدے سے خارج کر دی گئی۔
اب راستہ کیا ہے؟
موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے مندرجہ ذیل چار بنیادی اصولوں کو تسلیم کرنا ہوگا:
- ریاست جموں و کشمیر کو سندھ طاس معاہدے میں ایک تیسری فریق (Third Party) کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
- اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے جو پانی کے مسئلے پر تحقیق کرے۔
- ریاستی سطح پر ایک چارٹر آف واٹر اسٹیورڈشپ (Charter of Water Stewardship) تشکیل دیا جائے جو مندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہو:
- مقامی (Indigenous) آبی حقوق
- پائیدار انتظام (Sustainable Management)
- نسلی اور آئندہ نسلوں کے درمیان انصاف (Intergenerational Equity)
- جنگ کے بعد تلافی اور ماحولیاتی انصاف (Post-conflict Reparations & Ecological Justice)
- بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) سے رجوع کیا جائے تاکہ معاہدے میں کشمیریوں کو شامل نہ کرنے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکے۔
جنگ نہیں، شراکت اور انصاف چاہیے
اصل ریاستی خودمختاری، تولیت، اور قیادت کشمیریوں کی ہے۔ بھارت اور پاکستان کو جنگ اور جھگڑوں سے باز آنا ہوگا اور کشمیریوں کے انسانی، آبی، اور سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔
کشمیری عوام اس سیاسی چپقلش میں محض “کولیٹرل ڈیمیج” (ثانوی نقصان) بن گئے ہیں۔ یہ المیہ ختم ہونا چاہیے۔ ایک دانشمند سیاستدان صرف ووٹ اور ہمدردی کے لیے جھگڑا نہیں کرتا بلکہ مستقبل کے لیے انصاف، امن اور شراکت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

