جنوبی بھارت کی ریاست تمل ناڈو میں ۱ جنوری ۱۹۷۸ کو ارون اچالم راج شیکرن پیدا ہوئے۔ آج دنیا انہیں سوامی نتھیانندا کے نام سے جانتی ہے—ایک ایسا نام، جس نے جعلی روحانیت کے سائے میں نہ صرف ہزاروں لوگوں کو بے وقوف بنایا بلکہ ایک فرضی ملک “کیلاسا ملک” بھی قائم کر دیا۔ نِتھیانندا نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں کو پراسرار بنا رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۱۰ سال کی عمر میں انہیں “روحانی روشنی” حاصل ہوئی۔ ۱۷ سال کی عمر میں گرو کے انتقال کے بعد، وہ روحانی رہنما بننے کے سفر پر نکل پڑے۔ جلد ہی ان کے آشرم نے بھارت اور دنیا بھر میں پھیلنا شروع کر دیا، اور وہ خود کو یوگا اور مراقبہ کے ماہر کے طور پر پیش کرنے لگے۔
۲۰۱۰ میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں نتھیانندا ایک اداکارہ کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پائے گئے۔ دونوں نے ویڈیو کو جعلی قرار دیا، مگر فرانزک تجزیے نے اس کی تصدیق کر دی۔ اس کے علاوہ ان پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، بچوں پر تشدد، اور آشرم میں غیر قانونی قید جیسے سنگین الزامات بھی لگے۔ ۲۰۱۴ میں ایک ۲۴ سالہ خاتون کی موت کے بعد معاملہ اور گھمبیر ہو گیا۔ اس کے باوجود، نتھیانندا کے ماننے والوں کی تعداد میں کمی نہ آئی۔ بھارتی حکام نے انہیں پکڑنے کی کوششیں تیز کیں، مگر ۲۰۱۸ میں وہ ملک چھوڑ کر روپوش ہو گئے۔
دسمبر ۲۰۱۹ میں نتھیانندا نے اعلان کیا کہ انہوں نے جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور کے قریب ایک جزیرہ خرید کر “کیلاسا ملک” قائم کیا ہے۔ اس ریاست کے پاس اپنا جھنڈا، آئین، پاسپورٹ، کرنسی (کیلاشیئن ڈالر) اور یہاں تک کہ ریزرو بینک بھی تھا۔ ان کے ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا کہ پوری دنیا کے مظلوم ہندو اس ملک کی شہریت لے سکتے ہیں۔ حقیقت میں نہ کوئی زمین تھی، نہ سرحدیں، نہ ہی کوئی بین الاقوامی شناخت۔ ایکواڈور کی حکومت نے نتھیانندا کو پناہ دینے یا زمین فروخت کرنے کی تردید کر دی۔ بھارتی حکام کا خیال تھا کہ وہ امریکہ میں کہیں چھپے ہوئے ہیں۔
کیلاسا ملک کے فروغ میں ہندو قوم پرست جذبات کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ نتھیانندا نے خود کو “سپریم پونٹیف” کہلوا کر کیلاسا کو دنیا کے واحد ہندو پناہ گاہ کے طور پر پیش کیا۔ ان کے ڈیجیٹل پروپیگنڈا، سوشل میڈیا مہمات اور این جی اوز کے ذریعے لاکھوں روپے چندے کی صورت میں اکٹھے کیے گئے۔ ویب سائٹ پر دعویٰ تھا کہ ۱ کروڑ سے زائد افراد نے ای-سٹی زن شپ کے لیے درخواست دی۔
۲۰۲۳ میں “سفیر” وجیا پریہ نتھیانندا نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں “کیلاسا ملک” کی نمائندگی کی اور بھارت میں ہندوؤں پر ظلم کے الزامات لگائے۔ یہ واقعہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ اقوام متحدہ نے وضاحت دی کہ کوئی بھی اس فورم میں شرکت کر سکتا ہے، مگر کیلاسا نے اس کو اپنی عالمی شناخت کے طور پر پیش کیا۔
نیو جرسی کے شہر نیوآرک نے لاعلمی میں کیلاسا کے ساتھ سسٹر سٹی معاہدہ کر لیا۔ بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو فوری طور پر اس معاہدے کو منسوخ کر دیا گیا۔ تاہم کیلاسا نے اس موقع کی تصاویر اور خبروں کو اپنی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر خوب استعمال کیا۔
۲۰۲۴ میں کیلاسا کے نمائندے بولیویا کے قبائلی لوگوں سے ملے، اور انہیں ۲ لاکھ ڈالر سالانہ کے عوض زمین لیز پر دینے کا لالچ دیا۔ ۱۰۰۰ سال کی لیز، مکمل خودمختاری اور قدرتی وسائل پر ملکیت جیسے شرائط رکھی گئیں۔ ایک بولیویائی اخبار نے اس فراڈ کو بے نقاب کر دیا، حکومت نے معاہدے کالعدم قرار دے کر ۲۰ افراد کو ملک بدر کر دیا۔
نتھیانندا نے عجیب و غریب دعوے کیے: وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جسم میں ایسی جینیاتی تبدیلی دیکھی جس کی وجہ سے وہ نہ مرد ہیں نہ عورت؛ وہ جانوروں کو سنسکرت اور تمل بولنا سکھا سکتے ہیں؛ وہ ایٹم بم بننے سے پہلے ہی اسے روک سکتے تھے؛ اور وہ مریضوں کو چھو کر کینسر تک کا علاج کر سکتے ہیں۔ کیلاسا کی کرنسی، آئین، پاسپورٹ اور “کاسمک ایئرپورٹ” صرف ویب سائٹ پر ہی موجود ہیں۔
کیلاسا ملک کا فراڈ اس لیے کامیاب ہوا کہ اس میں مذہبی جذبات، ڈیجیٹل مہارت اور عالمی سادہ لوحی کا ملاپ تھا۔ نتھیانندا نے این جی اوز کے ذریعے امریکہ میں اکاؤنٹس کھلوائے، اور سوشل میڈیا پر اپنی ریاست کو سچ ثابت کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ سیاست دان، حکام اور عام لوگ ان کے پروپیگنڈا کا شکار ہوئے۔
جون ۲۰۲۵ تک نتھیانندا ابھی بھی روپوش ہیں۔ ان کی لوکیشن نامعلوم ہے، یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز باقاعدگی سے جاری ہوتی ہیں۔ ان کے ماننے والے انہیں ابھی بھی “سپریم پونٹیف” اور “ڈوائن ہیالر” مانتے ہیں، جبکہ دنیا انہیں ڈیجیٹل دور کے سب سے بڑے فراڈ کے طور پر جانتی ہے۔
کیلاسا ملک کی کہانی صرف ایک شخص یا ایک عقیدے کی نہیں، بلکہ یہ ڈیجیٹل دور میں دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ آج کے دور میں جعلی پروپیگنڈا اور ڈیجیٹل فراڈ سے بچاؤ کے لیے تحقیق، ہوشیاری اور شفافیت نہایت ضروری ہے۔
کیلاسا ملک ایک فرضی ریاست ہے جو صرف انٹرنیٹ پر وجود رکھتی ہے، مگر اس کے فراڈ کے اثرات پوری دنیا میں محسوس ہوئے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

