تہران – مشرق وسطیٰ میں حالات ایک بار پھر سنگین رخ اختیار کر گئے ہیں، جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل نے “آپریشن رائزنگ لائن” کے تحت رات بھر ایرانی ایٹمی تنصیبات اور فوجی قیادت کو نشانہ بنایا، جس کے بعد ایران نے شدید ردعمل کی دھمکی دی ہے، جس سے پورے خطے میں جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اہم تازہ ترین معلومات (براہِ راست اپ ڈیٹ)
-
اسرائیلی فضائی حملے ایران کے کئی شہروں بشمول نطنز، تہران، تبریز اور دیگر اسٹریٹیجک مقامات پر کیے گئے۔
-
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، حملوں میں کم از کم 78 افراد ہلاک اور 329 زخمی ہوئے (یہ اعدادوشمار آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں)۔
-
اسرائیلی فوج (IDF) نے آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر انفراسٹرکچر کو “شدید نقصان” پہنچایا گیا ہے۔
-
ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈر اور جوہری سائنسدان ہلاک ہو چکے ہیں۔
-
ایرانی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں عام شہری اور بچے بھی شامل ہیں۔
-
حملوں کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 7% سے زائد اضافہ دیکھا گیا۔
-
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ترکی، سعودی عرب اور چین نے تحمل کی اپیل کی ہے۔
-
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کی درخواست پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
-
اسرائیل کے شمالی علاقوں میں ائیر ریڈ سائرن اور میزائل وارننگز جاری کی گئیں۔
-
آزاد ذرائع سے موصولہ ویڈیوز میں ایران میں شدید نقصان دکھایا گیا ہے۔
تجزیہ: اسرائیل نے یہ کارروائی کیوں کی؟
اسرائیل کے مطابق، ایران کی جوہری پیش رفت نے صورتحال کو انتہائی خطرناک بنا دیا تھا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس “متعدد ایٹمی ہتھیاروں” کے لیے درکار مواد موجود ہے اور وہ اسرائیل پر ممکنہ طور پر بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اسرائیلی اقوام متحدہ کے سفیر ڈینی ڈینن کا بیان:
“ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے جب ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اب کی بار نہیں، کبھی نہیں۔ خالی باتوں سے ایران کو نہیں روکا جا سکتا۔ اسرائیل روکے گا۔”
ایرانی ردعمل
ایران نے اسرائیلی حملوں کو اپنی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ایرانی حکام نے “فوری اور شدید جواب” کی دھمکی دی ہے اور امریکہ کو بھی ذمہ دار قرار دیا ہے، جس کی واشنگٹن نے تردید کی ہے۔
تفصیل: کن مقامات کو نشانہ بنایا گیا؟
نطنز نیوکلیئر سہولت
اسرائیل کا مرکزی ہدف نطنز تھا، جو ایران کا سب سے بڑا یورینیم افزودگی مرکز ہے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مرکز کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔
فوجی اور سائنسی قیادت
ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے کئی سینیئر افسران اور جوہری سائنسدان ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی یہ پالیسی حزب اللہ کے خلاف پچھلی حکمت عملی سے ملتی جلتی ہے۔
عام شہریوں پر اثرات
ایران کا دعویٰ ہے کہ حملوں میں عام شہری، بشمول بچے، مارے گئے ہیں۔ آزاد ذرائع سے تصدیق جاری ہے۔
عالمی ردعمل: مذمت، تشویش، اور تحمل کی اپیل
-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی حملے کو “کامیاب کارروائی” قرار دیتے ہوئے ایران کو مزید نتائج کی دھمکی دی ہے۔
-
فرانس اور جرمنی نے اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کیا لیکن فوری جنگ بندی کی اپیل کی۔
-
برطانیہ، ترکی، سعودی عرب، عمان اور چین نے مختلف سطح کی تشویش اور مذمت کا اظہار کیا۔
-
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کی درخواست پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
تیل کی قیمتوں پر اثرات
برینٹ کروڈ کی قیمت 7% اضافے کے بعد $73 فی بیرل سے تجاوز کر گئی۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جاری تنازعہ عالمی معیشت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
عوام کی آواز: خطے سے حالات
یروشلم، تہران اور دیگر شہروں میں شہری خوف، صبر اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
“یہی ہماری تلخ حقیقت ہے، لوگ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، جیسے یہ سب عام ہو گیا ہو۔”
— گابی، یروشلم کی رہائشی
حقائق: اب تک کی تصدیق شدہ معلومات
-
آزاد ذرائع سے تہران، نطنز، تبریز، کرمانشاہ، پیرانشہر پر حملوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
-
سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں تباہ شدہ عمارات دیکھی جا سکتی ہیں۔
-
ریڈی ایشن میں اضافہ نہیں ہوا، IAEA کی رپورٹ۔
-
ایرانی ہلاکتوں کے اعداد و شمار ابھی آزاد ذرائع سے تصدیق طلب ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
-
ایران کا ممکنہ فوجی یا سائبر حملہ
-
اسرائیل کی جانب سے مزید آپریشنز
-
عالمی مارکیٹ میں ردعمل، خاص طور پر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ
-
اقوام متحدہ میں سفارتی پیش رفت
“مشرق وسطیٰ ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگلے چند دن یہ طے کریں گے کہ کیا سفارت کاری کامیاب ہوتی ہے یا کھلا تصادم شروع ہو جاتا ہے۔”
مزید اپڈیٹس، تجزیے اور ماہرین کی رائے کے لیے جڑے رہیں۔
#ایران_اسرائیل #MiddleEastConflict #OperationRisingLion #BreakingNews
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

