واشنگٹن، ڈی سی — پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی غیر معمولی ملاقات کو عالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ملاقات نہ صرف طے شدہ وقت سے زیادہ طویل رہی بلکہ اس میں علاقائی اور عالمی امور پر گہری گفتگو ہوئی، جس نے جنوبی ایشیائی سیاست میں ایک نئے موڑ کی نشاندہی کی ہے۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ ملاقات ابتدائی طور پر صرف ایک گھنٹے کے لیے طے تھی، مگر بات چیت کی گہرائی اور ہم آہنگی کے باعث یہ دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ ملاقات میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو، صدر کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے سٹیو وٹکوف، قومی سلامتی کے مشیر، اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی شریک تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو اس لیے مدعو کیا کیونکہ وہ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ممکنہ جوہری جنگ کو روکنے میں کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا، “میں ان سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔”
ٹرمپ کے مطابق، جنرل منیر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ، خاص طور پر ایران کو بھی گہرائی سے جانتے ہیں۔ “وہ ایران کو شاید دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں،” ٹرمپ نے کہا۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جنرل منیر سے ان کی کس بات پر اتفاق ہوا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی چند ہفتے قبل انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات ہوئی تھی، اور دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے باوجود، “دو ذہین لوگوں نے جنگ کو روکنے کا فیصلہ کیا”۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں خطے میں امن، انسداد دہشت گردی، مصنوعی ذہانت، معدنیات، کرپٹو کرنسی اور تجارت سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی، خصوصاً 13 جون کے اسرائیلی حملے کے بعد، مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خدشات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹرمپ سے جب ایران کے خلاف ممکنہ امریکی کارروائی سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، “میں شاید ایسا کروں، یا شاید نہ کروں۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔”
مبصرین کے مطابق، جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے یہ ملاقات نہ صرف خطے میں امن کے فروغ کے لیے اہم پیش رفت ہے، بلکہ امریکہ میں پاکستانی سفارتی مؤقف کے لیے بھی ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔ معروف تجزیہ کار شجاع نواز کے مطابق، “پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے، آقاؤں کی نہیں۔ جنرل منیر نے یہ پیغام واشنگٹن تک پہنچایا ہے۔”
صحافی کامران یوسف نے کہا کہ ٹرمپ کی گفتگو حیرت انگیز طور پر متوازن اور سنجیدہ تھی۔ “یہ وہی ٹرمپ نہیں تھے جو عام طور پر غیر سنجیدہ یا سخت بیانات دیتے ہیں۔ جنرل منیر کی موجودگی نے ان کا لہجہ بدلا۔”
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

