مظفرآباد،پاکستان زیرانتظام کشمیر: آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر “آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی” (او ایس ڈی) بنا دیا گیا ہے۔ راجہ سہیل احمد، جو کہ تھانہ سیکرٹریٹ مظفرآباد کے ایس ایچ او تھے، کو اچانک برطرف کر کے سنٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
محکمانہ مؤقف: “ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول”
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ فیصلہ ان کے “ناقص کمانڈ اینڈ کنٹرول” کی بنیاد پر لیا گیا، جب کہ حالیہ دنوں میں ان کے ماتحت تفتیشی افسر اے ایس آئی تنزیل صدیق پر ایک گرفتار ملزم سے رشوت طلب کرنے اور تشدد کا الزام سامنے آیا تھا۔
مورخہ 21 جون کو شہری محمد عامر چغتائی نے درخواست دی کہ اے ایس آئی تنزیل نے فیصل جاوید ولد نظیر جاوید کی ضمانت کے لیے 5 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، اور پھر نہ دینے کی صورت میں 2 لاکھ پر “ڈیل” کی گئی، لیکن رقم نہ ملنے پر گرفتار ملزم پر تشدد کیا گیا۔ اس الزام کے بعد ایس ایس پی مظفرآباد نے اے ایس آئی کو معطل کر دیا اور اینٹی کرپشن ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے رپورٹ بھیج دی گئی۔
اصل وجہ کچھ اور؟ بااثر افراد کی گرفتاریوں نے نیا رخ دے دیا
تاہم، پولیس کے اس موقف کے برعکس، سوشل میڈیا، صحافتی حلقوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آ رہا ہے کہ راجہ سہیل کو درحقیقت ان کے پیشہ ورانہ اقدامات کی سزا دی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں راجہ سہیل کی سربراہی میں وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ڈپٹی سیکریٹری کو جنسی اسکینڈل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا، جب کہ آزاد کشمیر محکمہ اطلاعات کا ایک اہلکار بھی اسی کیس میں حراست میں لیا گیا۔ ان گرفتار افراد کے مبینہ سیاسی و انتظامی تعلقات کے باعث ان کی رہائی کے لیے مختلف سطحوں پر دباؤ ڈالا گیا، جسے ایس ایچ او سہیل نے رد کر دیا۔
فیصل جاوید کیس اور سیاسی دھماکہ
مزید برآں، 23 جون کو پولیس نے ایک مشکوک گاڑی کو روکا جس میں موجود افراد میں سے ایک فیصل جاوید، کونسلر ہٹیاں بالا تھے۔ گاڑی میں مبینہ طور پر شراب موجود تھی، وہ نان کسٹم پیڈ تھی اور جعلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا، مگر بعد میں گرفتار افراد نے پولیس پر رشوت طلب کرنے اور تشدد کا الزام بھی لگایا۔
معاملہ مزید حساس اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر خبریں سامنے آئیں کہ وزیر حکومت سردار دیوان چغتائی کے صاحبزادے جمال دیوان پولیس اسٹیشن پہنچے اور ایس ایس پی آفس میں تلخ کلامی و ہاتھا پائی کا واقعہ پیش آیا، جسے پولیس نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا، مگر آزاد ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ فیصل جاوید کے کیس کے حوالے سے پولیس پر دباؤ ڈالنے آئے تھے۔
ایمانداری کی سزا یا محکمانہ عمل؟
آج جب راجہ سہیل کو او ایس ڈی بنایا گیا تو بہت سے حلقوں نے اس اقدام پر سوالات اٹھائے ہیں۔ سول سوسائٹی اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ راجہ سہیل کو اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے سیاسی دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کیا، بااثر افراد کو قانون کے دائرے میں لایا، اور ایمانداری سے کام کیا۔
کچھ تجزیہ کاروں نے اس فیصلے کو “پولیس فورس میں ایمانداری کی حوصلہ شکنی” قرار دیا ہے۔
اب آگے کیا؟
پولیس پر لگائے گئے الزامات جیسے رشوت، اختیارات کا ناجائز استعمال اور تشدد، انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں جن کی مکمل، شفاف اور غیرجانبدارانہ انکوائری ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
- کیا راجہ سہیل کی برطرفی واقعی کمانڈ کی ناکامی پر مبنی تھی؟
- یا یہ اقدام سیاسی مداخلت کے دباؤ کا نتیجہ ہے؟
- کیا اس معاملے کی عدالتی یا محکمانہ انکوائری ہو گی؟
جب تک ایک آزاد انکوائری نہ ہو، اس کیس کو صرف ایک پولیس افسر کی تبدیلی نہیں، بلکہ ریاستی نظام انصاف کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

