کشمیر کی جغرافیائی اور معاشی زندگی پانی کے دریاؤں سے جڑی ہے۔ یہاں کے دریا نہ صرف زراعت، پن بجلی اور روزمرہ زندگی کا بنیادی ذریعہ ہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے تین بڑے ممالک—ہندوستان، پاکستان اور چین—کے تعلقات میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دریاؤں کو تقسیم اور استعمال کرنے کے لیے 1960 میں ایک تاریخی معاہدہ—سندھ آبی معاہدہ (Indus Waters Treaty/IWT)—ہوا، جس نے جموں و کشمیر کے دریاؤں کے پانی کو عالمی تنازعے کے بجائے سفارتی عمل کا حصہ بنایا۔
اپریل 2025 میں ہندوستان نے سندھ آبی معاہدہ “معطل” کرنے کا اعلان کیا اور عالمی بینک سے درخواست کی کہ وہ کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں پر جاری تنازعات کی کارروائی روک دے۔ عالمی بینک نے ان تنازعات کے حل کے لیے فرانسیسی انجینئر مشیل لینو کو نیوٹرل ایکسپرٹ مقرر کیا تھا، جو دونوں فریقوں (ہند و پاک) کے مؤقف سن کر یہ طے کرتے کہ کیا یہ منصوبے معاہدے کے مطابق ہیں۔
ہندوستان کی اس درخواست پر پاکستان نے اپنا ردعمل پیش کیا اور کارروائی جاری رکھنے کی حمایت کی۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہندوستان ان منصوبوں میں کم از کم پانی کے بہاؤ اور ڈیزائن سے متعلق شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جبکہ نئی دہلی کا الزام ہے کہ پاکستان سیاسی بنیادوں پر تکنیکی مسائل اٹھا رہا ہے۔
- کشن گنگا پروجیکٹ: 330 میگاواٹ کی صلاحیت کا یہ منصوبہ جہلم کی معاون ندی، کشن گنگا پر واقع ہے۔ اس منصوبے پر پہلے بھی بین الاقوامی تنازع ہوا اور ثالثی کے عمل سے اس کے کچھ ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں۔
- رتلے پروجیکٹ: چناب ندی پر زیرتعمیر، 850 میگاواٹ کا یہ منصوبہ پاکستان کے لیے مسلسل تشویش کا باعث رہا ہے، خاص طور پر پانی کے بہاؤ اور ڈیم کی اونچائی کے حوالے سے۔
کشمیری عوام کے لیے پانی صرف قدرتی وسیلہ نہیں، بقاء اور خودمختاری کی علامت ہے۔ موجودہ تنازعہ بھارت اور پاکستان کے قومی مفادات اور سکیورٹی ایجنڈوں کے بیچ گھرا ہوا ہے، لیکن اس کا سب سے برا اثر براہ راست وادی کے لوگوں پر پڑتا ہے—چاہے وہ بجلی کی کمی ہو، زرعی زمینوں کی سیرابی یا ماحولیاتی توازن میں بگاڑ۔
بحیثیت ایک غیر جانبدار ادارہ، کشمیر آبزرور سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک کی آبی پالیسیوں اور پن بجلی منصوبوں پر بات چیت میں اصل متاثرین—یعنی کشمیری کسان، شہری اور ماحولیات—کی آواز کو ترجیح ملنی چاہیے۔ پانی پر علاقائی سیاست کے بجائے پائیدار ترقی، شفافیت اور عوامی شمولیت کو فروغ دینا ہی مسئلے کا مستقل حل ہے۔
سندھ آبی معاہدہ ایک عالمی نظیر ہے، لیکن اس کی حالیہ معطلی نہ صرف ہند و پاک بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے آبی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ عالمی بینک اور اقوام متحدہ جیسے اداروں پر لازم ہے کہ وہ خطے کے ماہرین، سول سوسائٹی اور مقامی متاثرین کی رائے کو بھی عمل میں لائیں اور کسی یکطرفہ فیصلے کی بجائے مذاکرات کو جاری رکھنے پر زور دیں۔
آگے کا راستہ: شفافیت، مذاکرات اور پانی پر حق
- دونوں ممالک کو چاہیے کہ سندھ آبی معاہدہ جیسے فورمز کو سیاسی دباؤ سے پاک رکھیں اور ماہرین کی سفارشات کو بنیاد بنائیں۔
- کشمیری مقامی آبادی کی شمولیت، ماحولیاتی تحفظ، اور پانی کے مقامی حق کو مرکزی حیثیت دی جائے۔
- میڈیا اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو صرف علاقائی کشمکش کے طور پر نہیں بلکہ انسانی اور ماحولیاتی بحران کے طور پر بھی اجاگر کریں۔
پانی پر جھگڑے میں اصل سوال یہ ہے کہ “پانی کس کا ہے؟”۔ اس کا جواب صرف سرحدوں یا معاہدوں سے نہیں، بلکہ شفافیت، انصاف اور مقامی لوگوں کے حق سے جڑا ہے۔ کشمیر کے پانی، پن بجلی اور کسانوں کے مستقبل پر فیصلہ کن مکالمہ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

