ایران کی جانب سے جاری جوابی فوجی کارروائی “آپریشن یا علی ابن ابی طالب” کے تحت ہفتے کی شام کو ایک 10 منزلہ رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ تقریباً 7 افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
یہ حملہ ایران کے آپریشن “سچا وعدہ III (True Promise III)” کا حصہ ہے جو ایران میں اسرائیلی بمباری کے بعد شروع کیا گیا تھا، جس میں ایرانی فوجی افسران اور ایٹمی سائنسدان جاں بحق ہوئے تھے۔
وقت کے خلاف دوڑ: ریسکیو آپریشن جاری
واقعے کے فوری بعد ریسکیو ٹیموں نے جائے وقوعہ پر کارروائیاں شروع کر دیں۔ پہلے مرحلے میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ 35 افراد ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں بھاری مشینری، کھوجی کتوں اور رضاکاروں کے ساتھ وقت کے خلاف دوڑ میں مصروف ہیں تاکہ ملبے میں دبے افراد کو زندہ نکالا جا سکے۔
تباہ شدہ عمارت کے ایک پورے حصے کو زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ ٹیڑھی دھاتیں، ٹوٹا ہوا کنکریٹ اور خوفناک منظر نے علاقے کو ماتم کدہ بنا دیا ہے۔
دھماکے کی شدت: قریبی عمارتوں کو بھی نقصان
عینی شاہدین کے مطابق، دھماکے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ 100 میٹر کے فاصلے پر واقع اپارٹمنٹ بلاکس کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور شٹر اکھڑ گئے۔ لوگوں نے بتایا کہ زمین لرز اٹھی اور شیشے بکھر گئے۔
ایک مقامی شہری نے بتایا:
“ہم نے زوردار دھماکہ سنا، ایسا لگا جیسے زلزلہ آ گیا ہو، پھر چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ کھڑکیاں اور دروازے سب ٹوٹ چکے تھے۔”
جنگ کی شدت میں اضافہ، دونوں طرف ہلاکتیں
یہ حملہ موجودہ ڈھائی دن کی جنگ کے دوران اسرائیل پر سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں ایران میں ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، خاص طور پر خواتین، بچوں اور سویلین علاقوں کو نشانہ بنانے کی شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
عالمی سطح پر تشویش
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری فوجی جھڑپیں ایک وسیع تر جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشات کو جنم دے چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے تحمل اور سفارتی راستے اپنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

