تحریر: Kashmir Today Writes
میں قربان اس پر، جو میری اور میری نسل کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہر پانچ سال بعد ہم اسی کے پیچھے بھاگتے ہیں، خوش ہو جاتے ہیں، خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے بس یہی کافی ہو۔ لیکن کیا واقعی یہی کافی ہے؟ کیا ایک پائپ ہماری ریاست کی ترقی کا ضامن ہے؟ کیا ہم صرف پانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا ہمیں اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں نہیں پڑھانا؟ کیا ہمیں بہتر سڑکوں کی ضرورت نہیں؟ کیا روڈز کی خستہ حالی، روز بڑھتے حادثات، دور دراز علاقوں تک راستے لے جانے کی ضرورت نہیں؟
کیا ہمیں صحت کی سہولیات، دوائیں، اچھے اسپتال، حاضر رہنے والے ڈاکٹر نہیں چاہئیں؟ اگر پائپ ہی سب کچھ ہوتا تو کیا ہمارے خواب، ہماری ترقی، ہماری نسلوں کا مستقبل بے معنی ہے؟ کشمیر میں ملازمین کے لیے الگ قوانین، کم تنخواہیں، کم مراعات کیوں؟ اگر ہم ایک ریاست ہیں تو ہمارے ساتھ دوہرا معیار کیوں؟ کیا ہم وہ حقوق نہیں رکھتے جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں؟
جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ، وسائل کی بربادی، کیا ہم نے کبھی کسی وزیر سے جا کر پوچھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ نہیں، ہم جا کر صرف کالا پائپ لے آتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ یہ قوم سڑکوں، اسپتالوں، تعلیم، روزگار، حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائے گی، یہ بس ایک پائپ سے خوش ہو جائے گی، خاموش ہو جائے گی۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم اپنی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں؟ اگر آج ہم نہ بدلے تو کل بھی یہی ہوگا، اور ہم غلام ہی رہیں گے۔ اگر ہمیں حقیقی آزادی، حقیقی ترقی چاہیے تو ہمیں اپنے شعور کو بیدار کرنا ہوگا، اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ ہر پانچ سال بعد یہی کالا پائپ ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتا رہے گا، اور جو کچھ ہماری نسلوں کے ساتھ ہوگا ہم صرف خاموش تماشائی بنتے رہیں گے۔۔
Copyright reserved to: Kashmir Writes
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں