سری نگر، جموں و کشمیر: جموں و کشمیر اسمبلی کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خطے میں تقریباً 7,000 کنال زمین غیر مقامی کمپنیوں کو الاٹ کی گئی ہے، جس پر مقامی کاروباری حلقوں اور عالمی مبصرین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اقدام بھارت کی اس وسیع حکمت عملی کا حصہ سمجھا جا رہا ہے، جس کے تحت وہ کشمیر کے آبادیاتی اور اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط بنا رہا ہے۔
غیر مقامی کمپنیوں کو وسیع پیمانے پر زمین کی منتقلی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6,954 کنال زمین مختلف کمپنیوں کو الاٹ کی جا چکی ہے، جن میں سے 2,099 کنال زمین صرف گزشتہ دو سالوں میں دی گئی ہے۔ اس زمین کی منتقلی میں دہلی، پنجاب اور گجرات کی بڑی کارپوریشنز کے علاوہ سری لنکا اور متحدہ عرب امارات (UAE) کی بین الاقوامی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
یہ پیش رفت مقامی کاروباری برادری کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ اس سے مقامی معیشت پر غیر مقامی کمپنیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔
زمین حاصل کرنے والی اہم کمپنیاں
حکومت کی جانب سے زمین حاصل کرنے والی بڑی کمپنیوں میں شامل ہیں:
- RSWM لمیٹڈ، دہلی – 275 کنال
- Grew Energy پرائیویٹ لمیٹڈ، گجرات – 646 کنال
- Ceylon Beverages، سری لنکا – 206 کنال
- Magna Waves Build Tech پرائیویٹ لمیٹڈ، متحدہ عرب امارات – 130 کنال (سری نگر میں)
مجموعی طور پر 23 غیر مقامی کمپنیاں 2021-2030 انڈسٹریل پالیسی کے تحت 826 کنال سے زائد زمین حاصل کر چکی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے کٹھوعہ، سانبہ اور جموں کے صنعتی زونز ہیں، جہاں مقامی صنعتوں کے بجائے غیر ملکی اور غیر مقامی کمپنیوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
کٹھوعہ اور سانبہ میں متنازعہ الاٹمنٹ
کٹھوعہ اور سانبہ کے اضلاع میں، 2016-2026 انڈسٹریل پالیسی کے تحت، آدھی سے زیادہ زمین صرف دو بڑی کمپنیوں کو دی گئی:
- ACTL لمیٹڈ، دہلی – 265 کنال
- کندھاری بیوریجز، چندی گڑھ – 388 کنال
ان بڑے پیمانے پر ہونے والی زمین کی منتقلی پر خطے کے عوام نے شفافیت اور منصفانہ پالیسیوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ خطہ ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی؟
جموں و کشمیر کو اقوام متحدہ (UN) نے متنازعہ علاقہ تسلیم کر رکھا ہے، اور عالمی برادری مسلسل اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
بھارت کی جانب سے غیر مقامی کمپنیوں کو زمین کی منتقلی پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47 میں واضح طور پر کشمیری عوام کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہے اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کی گئی ہے جو خطے کی حیثیت کو تبدیل کرے۔ یہ نئی زمین الاٹمنٹ اسی پالیسی کا حصہ سمجھی جا رہی ہے جس کے ذریعے بھارت کشمیر کے آبادیاتی اور اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مقامی کشمیری کاروباری برادری کے لیے خطرہ
مقامی کشمیری تاجروں کے لیے یہ زمین کی منتقلی ایک بڑا معاشی خطرہ ہے، کیونکہ غیر مقامی کمپنیوں کے غلبے کی وجہ سے مقامی کاروبار شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
جموں و کشمیر میں پہلے ہی مقامی کاروبار مختلف چیلنجز کا شکار ہیں، اور اب غیر مقامی کمپنیوں کو زمین دینے سے ان کے لیے مارکیٹ میں سروائیو کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ اس پالیسی کے ذریعے بھارت کشمیر کی مقامی معیشت کو کمزور کر کے بیرونی سرمایہ داروں کو کنٹرول دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
عالمی ردعمل اور کارروائی کا مطالبہ
اس سنگین پیش رفت کے باوجود عالمی برادری نے بھارت کی کشمیر پالیسی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں، خصوصاً اقوام متحدہ کو بھارت کی اس پالیسی پر سخت موقف اپنانا چاہیے جو نہ صرف کشمیری عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی توہین ہے۔
آزاد کشمیر اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے حقوق کے حامی بھارت کو اس اقدام پر جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو کشمیر کے عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دلانے کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا، جو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ان کا حق ہے۔
عالمی مداخلت کی ضرورت
یہ زمین کی الاٹمنٹ محض ایک اقتصادی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت بھارت کشمیر کے آبادیاتی اور اقتصادی ڈھانچے کو تبدیل کر رہا ہے۔
چونکہ کشمیر کا تنازعہ تاحال حل طلب ہے، اس لیے بھارت کی یہ کارروائیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی بھی ہیں۔
عالمی برادری کو فوری طور پر بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ ان غیر قانونی پالیسیوں کو بند کرے اور کشمیری عوام کو ان کا بنیادی حق دلایا جائے تاکہ وہ بغیر کسی بیرونی مداخلت کے اپنا مستقبل خود طے کر سکیں۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں