ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں رفیق نام کا ایک شخص رہتا تھا۔ وہ ایک غریب مگر محنتی آدمی تھا اور ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا۔ اس کے برعکس، اسی گاؤں میں سلیم نامی ایک شخص تھا جو محنت سے جی چراتا اور دوسروں کی خوشامد کر کے اپنا مطلب نکالنے میں ماہر تھا۔ وہ ہر امیر آدمی کی تعریفیں کر کے ان سے فائدہ حاصل کر لیتا اور لوگ اسے عقلمند سمجھتے تھے۔
رفیق کی عادت تھی کہ وہ کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کرتا تھا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف، سلیم گاؤں کے چودھری کے سامنے ہر وقت تعریفوں کے پل باندھتا۔ “چودھری صاحب! آپ جیسا رحم دل اور عقلمند آدمی پورے گاؤں میں نہیں۔” “چودھری صاحب! آپ کے بغیر یہ گاؤں چل ہی نہیں سکتا۔” چودھری یہ سن کر خوش ہو جاتا اور سلیم کو انعام و اکرام سے نوازتا۔
چودھری کی نظر میں سلیم ایک وفادار اور ایماندار شخص بن گیا، جبکہ رفیق جو سچ بولتا تھا، اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن گاؤں میں ایک بڑا فیصلہ لینا تھا کہ نئے پل کی تعمیر کہاں کی جائے۔ رفیق نے مشورہ دیا کہ پل دریا کے کنارے بنایا جائے تاکہ تمام دیہاتیوں کو فائدہ ہو۔ لیکن سلیم فوراً بولا، “چودھری صاحب! جو جگہ آپ پسند کریں، وہی بہترین ہوگی۔ آپ کی سوچ سب سے اعلیٰ ہے۔” چودھری خوش ہو گیا اور سلیم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پل ایسی جگہ بنانے کا فیصلہ کیا جو فائدہ مند نہیں تھی۔
جب بارش ہوئی تو پل ٹوٹ گیا اور پورے گاؤں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ چودھری کو تب احساس ہوا کہ سلیم کی خوشامد نے اسے غلط فیصلہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے سب کے سامنے اعلان کیا، “میں نے ہمیشہ خوشامدیوں کی باتوں پر یقین کیا اور نقصان اٹھایا۔ اصل میں سچ بولنے والے ہی ہمارے حقیقی خیر خواہ ہوتے ہیں۔”
اس دن کے بعد چودھری نے سلیم کو نظر انداز کر دیا اور رفیق جیسے سچے لوگوں کی بات سننے لگا۔ گاؤں کے لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ خوشامد بری بلا ہے، جو سچائی کو چھپا کر صرف وقتی فائدہ دیتی ہے، مگر آخر میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں