Advertisement

ہیڈلائن

کالمز / بلاگ

آزاد کشمیر: بجلی پیدا کرنے والا خطہ خود اندھیرے میں کیوں؟

آزاد کشمیر: روشنی کی امید یا اندھیروں کا سایہ؟ آزاد کشمیر وہ خطہ ہے جس کی سرزمین پاکستان کو سالانہ کھربوں روپے مالیت کی بجلی فراہم کرتی ہے، مگر جب بات اپنے ہی گھر کی ہو تو یہ خطہ اندھیروں کا شکار ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات، جن میں گرمی کی بے مثال شدت، مسلسل لوڈشیڈنگ کے واقعات اور ریاستی اداروں کی بے حسی شامل ہیں، عوام کے دلوں میں بے چینی کا موجب بن چکے ہیں۔ یہ اداریہ ان حالات کی کڑوی حقیقت، مقامی لوگوں کے درد اور عوامی اعتماد کے زوال کو اجاگر کرتا ہے۔ بجلی کا بحران: ایک متضاد حقیقت آزاد کشمیر کی بجلی پیداوار کی مجموعی صلاحیت 4932 میگاواٹ کے قریب ہے، جس میں منگلا ڈیم سے حاصل ہونے والے 1400 میگاواٹ نمایاں ہیں۔ اگرچہ یہ صلاحیت پاکستان کے دیگر حصوں کو روشنی مہیا کرنے کے لیے کافی ہے، مگر خود آزاد کشمیر کو مض 385 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حساب سے، اگر خطے کے اندر صرف اتنا ہی بجلی فراہم کی جائے، تو لوڈشیڈنگ کا کوئی مسئلہ اجاگر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم، حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ جب درجہ حرارت 38 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، تو کئی اضلاع جیسے مظفرآباد، میرپور، راولاکوٹ وغیرہ میں یومیہ 6 سے 8 گھنٹے بجلی کی بندش عوام کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ آزاد کشمیر: بجلی کی پیداوار، ضرورت اور مالیت...

غزل: برف نے سب کچھ ڈھانپ لیا ہے

برف نے سب کچھ ڈھانپ لیا ہےخوابوں کو بھی...

کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھیوں کے گھر ڈھا دیے

سرینگر، 26 اپریل — بھارت کے زیر انتظام جموں...

خوشامد بری بلا ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں رفیق نام کا ایک شخص رہتا تھا۔ وہ ایک غریب مگر محنتی آدمی تھا اور ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا۔ اس کے برعکس، اسی گاؤں میں سلیم نامی ایک شخص تھا جو محنت سے جی چراتا اور دوسروں کی خوشامد کر کے اپنا مطلب نکالنے میں ماہر تھا۔ وہ ہر امیر آدمی کی تعریفیں کر کے ان سے فائدہ حاصل کر لیتا اور لوگ اسے عقلمند سمجھتے تھے۔

رفیق کی عادت تھی کہ وہ کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کرتا تھا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف، سلیم گاؤں کے چودھری کے سامنے ہر وقت تعریفوں کے پل باندھتا۔ “چودھری صاحب! آپ جیسا رحم دل اور عقلمند آدمی پورے گاؤں میں نہیں۔” “چودھری صاحب! آپ کے بغیر یہ گاؤں چل ہی نہیں سکتا۔” چودھری یہ سن کر خوش ہو جاتا اور سلیم کو انعام و اکرام سے نوازتا۔

چودھری کی نظر میں سلیم ایک وفادار اور ایماندار شخص بن گیا، جبکہ رفیق جو سچ بولتا تھا، اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن گاؤں میں ایک بڑا فیصلہ لینا تھا کہ نئے پل کی تعمیر کہاں کی جائے۔ رفیق نے مشورہ دیا کہ پل دریا کے کنارے بنایا جائے تاکہ تمام دیہاتیوں کو فائدہ ہو۔ لیکن سلیم فوراً بولا، “چودھری صاحب! جو جگہ آپ پسند کریں، وہی بہترین ہوگی۔ آپ کی سوچ سب سے اعلیٰ ہے۔” چودھری خوش ہو گیا اور سلیم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پل ایسی جگہ بنانے کا فیصلہ کیا جو فائدہ مند نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں:  اتفاق میں برکت ہے کہانی

جب بارش ہوئی تو پل ٹوٹ گیا اور پورے گاؤں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ چودھری کو تب احساس ہوا کہ سلیم کی خوشامد نے اسے غلط فیصلہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے سب کے سامنے اعلان کیا، “میں نے ہمیشہ خوشامدیوں کی باتوں پر یقین کیا اور نقصان اٹھایا۔ اصل میں سچ بولنے والے ہی ہمارے حقیقی خیر خواہ ہوتے ہیں۔”

اس دن کے بعد چودھری نے سلیم کو نظر انداز کر دیا اور رفیق جیسے سچے لوگوں کی بات سننے لگا۔ گاؤں کے لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ خوشامد بری بلا ہے، جو سچائی کو چھپا کر صرف وقتی فائدہ دیتی ہے، مگر آخر میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔

📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں

spot_imgspot_img