بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مطابق پولیس نے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر جاری دھرنے پر کارروائی کرتے ہوئے کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ دھرنا بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر انصاف اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
بی وائی سی کے ترجمان کے مطابق، پولیس نے دھرنے کو زبردستی ختم کروایا، احتجاجی مواد ضبط کیا، اور ماہ رنگ بلوچ کو حراست میں لے لیا۔ تاہم، مقامی حکام نے ابھی تک ان کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی ہے، جس سے صورتحال میں ابہام پیدا ہو گیا ہے۔
یہ کارروائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کوئٹہ میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی ہیں، جس کا مقصد مزید بے امنی کو روکنا بتایا جا رہا ہے۔ بی وائی سی کی کال پر صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی، جس میں مستونگ، قلات، خضدار اور حب جیسے بلوچ اکثریتی اضلاع میں کاروباری مراکز مکمل بند رہے۔ کوئٹہ میں سریاب روڈ اور ملحقہ علاقوں میں جزوی شٹر ڈاؤن دیکھا گیا۔
انصاف کا مطالبہ
بی وائی سی کے احتجاج کا تعلق بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی قتل کے خلاف چلنے والی طویل عرصے سے جاری تحریک سے ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اس تحریک میں ایک نمایاں رہنما کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر آواز اٹھانے میں پیش پیش رہی ہیں۔
ان کی گرفتاری کی اطلاعات پر کارکنوں اور مقامی کمیونٹیز میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ بی وائی سی کے ترجمان کا کہنا تھا، “پرامن احتجاج پر ریاست کا جواب ہمیشہ دباؤ ہوتا ہے۔ ماہ رنگ کی گرفتاری ایک واضح پیغام ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں۔”
انٹرنیٹ بندش اور مواصلاتی پابندیاں
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنتے ہوئے، حکام نے کوئٹہ میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی ہیں، جس سے مواصلات کا نظام مفلوج ہو گیا ہے اور معلومات کا بہاؤ محدود ہو گیا ہے۔ ایسے اقدامات بلوچستان میں غیرمعمولی نہیں ہیں، جہاں احتجاج اور بے امنی کے موقع پر اکثر مواصلاتی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
سروسز کی معطلی پر بین الاقوامی حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان کا کہنا تھا، “انٹرنیٹ بند کرنا اختلاف رائے کو دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کا ایک حربہ ہے۔”
وسیع تر تناظر
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا لیکن کم ترقی یافتہ صوبہ ہے، علیحدگی پسند تحریکوں اور ریاستی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔ خطے کے رہائشیوں نے طویل عرصے سے حکومت پر نظرانداز کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی قتل، کا الزام لگایا ہے۔
بی وائی سی کے احتجاج اور ماہ رنگ بلوچ کی سرگرمیاں خطے میں انصاف اور جوابدہی کے لیے جاری جدوجہد کو اجاگر کرتی ہیں۔ اگر ان کی گرفتاری کی تصدیق ہوتی ہے، تو یہ صورتحال مزید کشیدگی پیدا کر سکتی ہے اور بلوچ کارکنوں کے مسائل پر بین الاقوامی توجہ مبذول کرا سکتی ہے۔
جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھ رہی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی مبصرین پاکستانی حکام سے شفافیت اور تحمل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں بلوچستان پر ہیں، جہاں کے کارکن چیلنجوں کے باوجود انصاف کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں