نکیال (پاکستان زیر انتظام کشمیر): دریڑی پلانی گاؤں نکیال میں ایک معصوم بچی کے جنازے کو فرقہ وارانہ تنازعے کا شکار بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں شیعہ و سنی گروہوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا۔ یہ واقعہ پورے خطے کے لیے تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مذہبی ہم آہنگی کی بجائے نفرت کی دیواریں بلند ہو رہی ہیں۔
واقعے کی تفصیلات:
- متاثرہ بچی، جو گزشتہ روز موٹر سائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوئی تھی، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئی۔
- بچی کی والدہ کوما میں ہیں، جبکہ والد شدید صدمے سے دوچار ہیں۔
- جنازے کے موقع پر اختلافات اس وقت بڑھ گئے جب گاؤں کے افراد بچی کی نمازِ جنازہ کے طریقہ کار پر متفق نہ ہو سکے۔ نتیجتاً، جھگڑا تشدد میں بدل گیا، جس میں دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔
- معاملہ اس نہج تک پہنچا کہ بچی کے جنازے کو دو مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا، جو کہ خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک المناک مثال ہے۔
سماجی ردعمل اور مذمتیں:
اس واقعے نے نکیال سمیت پورے آزاد کشمیر میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ مقامی رہنما اور سماجی کارکنوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے رکن شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ نے اس واقعے کو “انسانی اخلاقیات اور مذہبی رواداری کی شکست” قرار دیتے ہوئے کہا:
“یہ صرف ایک جنازے کا جھگڑا نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی انسانیت کا جنازہ ہے۔ جب ہم ایک معصوم بچی کی آخری رسومات پر بھی متفق نہیں ہو سکتے، تو ہم کس قسم کے معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں؟”
مطالبات:
- فوری قانونی کارروائی: واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات۔
- بین المسالک ہم آہنگی کمیٹی: ضلع سطح پر ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جو فرقہ وارانہ تنازعات کو روک سکے۔
- علماء کا مشترکہ اعلامیہ: تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ جنازوں کو سیاسی یا فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔
- سوشل میڈیا پر کنٹرول: نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی۔
نکیال ایک پرامن خطہ رہا ہے، لیکن اگر ایسے واقعات روکے نہ گئے، تو یہاں بھی فرقہ واریت کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ننھے معصوموں کے جنازوں کو میدانِ جنگ بننے سے روکیں اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں جہاں “تکبیر کی تعداد نہیں، بلکہ دعا کی تاثیر” اہم ہو۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

