باستخدام هذا الموقع ، فإنك توافق على سياسة الخصوصية و شروط الاستخدام .
Accept
دی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمز
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
Reading: ثریا کوثر کی الوداعی چیخ: 43 سال بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے جبری واپسی
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
دی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمز
Font ResizerAa
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
Have an existing account? Sign In
Follow US
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجئے
  • اشتہار چلائیں
  • پرائیویسی پالیسی
© 2022 Foxiz News Network. Ruby Design Company. All Rights Reserved.
دی آزادی ٹائمز > Blog > جموں وکشمیر > ثریا کوثر کی الوداعی چیخ: 43 سال بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے جبری واپسی
جموں وکشمیر

ثریا کوثر کی الوداعی چیخ: 43 سال بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے جبری واپسی

Azadi Times
Last updated: April 30, 2025 9:25 am
Azadi Times
3 months ago
Share
ثریا کوثر کی الوداعی چیخ: 43 سال بعد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے جبری واپسی
SHARE

پہلگام میں حالیہ سیاحتی حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ کشیدگی کا ایک اور انسانی پہلو سامنے آیا ہے وہ خواتین جو عشروں سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رچ بس گئی تھیں، اب بنا کسی پناہ، کسی رشتے اور کسی سہارا کے جبری طور پر واپس پاکستان بھیجی جا رہی ہیں۔

منگل کے روز، جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ سے 11 پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے شہریوں کو اٹاری کے راستے واپس پاکستان کے زیرانتظام بھیج دیا گیا۔ ان میں شامل 55 سالہ ثریا کوثر کا روتے ہوئے الوداع کہنا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں وہ کہتی ہیں:
“میں اپنے پیچھے اپنی ساری دُنیا چھوڑ کر جارہی ہوں۔ میں نے اگر کسی کا دل دُکھایا ہو تو معاف کرنا۔ میرے لیے واپس جانا ایک قیامت ہے، کیونکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میرا کوئی نہیں ہے۔”

حمایتی پیغام

آزاد صحافت کی حمایت کریں

دی آزادی ٹائمز جموں و کشمیر کا واحد آزاد خبررساں ادارہ ہے جو کسی بھی حکومت، سیاسی جماعت یا نجی ادارے کے دباؤ سے آزاد ہو کر وہ خبریں سامنے لاتا ہے جو واقعی اہم ہوتی ہیں۔ آپ کا معمولی سا تعاون بھی ہمیں آزاد رکھنے اور انسانی حقوق، آزادی اور انصاف پر رپورٹنگ جاری رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

آزاد صحافت کو سپورٹ کریں

ثریا کی کہانی ان ہزاروں افراد کی داستان کا عکس ہے جن کی زندگیوں نے سرحدوں کے آرپار بنتی بگڑتی سیاست کی قیمت چکائی ہے۔

ثریا کوثر 1982 میں پاکستان سے اپنے ماموں کے ساتھ پونچھ واپس آئی تھیں، جہاں اُن کی والدہ کی جائے پیدائش تھی۔ بعد میں اُن کی شادی مینڈھر کے عابد حسین شاہ سے ہوئی۔ آج ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پونچھ میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن ثریا کو، جن کی عمر کا بڑا حصہ اسی زمین پر گزرا، صرف اس بنیاد پر واپس بھیج دیا گیا کہ ان کی جائے پیدائش پاکستان تھی — وہ پاکستان جہاں نہ کوئی رشتہ دار ہے، نہ کوئی ٹھکانہ۔

یہ بھی پڑھیں:  چین میں گلگت بلتستان پر سرمایہ کاری کانفرنس: متنازعہ خطے میں معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش

مقامی افراد کے مطابق، پولیس نے پاکستان میں کسی دور کے نامعلوم رشتہ دار کا پتہ لگا کر ثریا کو روانہ کیا۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے شہریوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کی آخری مہلت 27 اپریل مقرر کی گئی تھی، اور اس کے بعد رہ جانے والوں کو زبردستی ڈیپورٹ کیا جا رہا ہے۔

ایک پالیسی، کئی ٹوٹے دل

یہ معاملہ صرف ثریا کا نہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے مطابق، مزید 34 پاکستانی شہریوں کو بھی ملک بدر کیا جا رہا ہے، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے 2010 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی واپسی و بازآبادکاری اسکیم کے تحت کشمیر کا رخ کیا تھا۔

یہ اسکیم ان کشمیری نوجوانوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھی جو 1990 کی دہائی میں عسکری تربیت کے لیے پاکستان گئے تھے، مگر بعد میں ہتھیار چھوڑ کر عام شہری زندگی اپنائی، شادیاں کیں اور بچے پیدا کیے۔ جب یہ خاندان کشمیر واپس آئے، تو انہوں نے امید کی بنیاد پر نئی زندگیاں شروع کیں۔ آج وہی خاندان، جنہیں ایک وقت میں واپس بلایا گیا تھا، اب الگ کیے جا رہے ہیں۔

جبری واپسی یا انسانی المیہ؟

سرحدوں پر سختیوں، ویزا پالیسیوں یا سفارتی فیصلوں کا بوجھ ہمیشہ عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے — خاص طور پر ان خواتین کو، جنہوں نے اپنا گھر، شوہر، بچے اور کمیونٹی کشمیر میں بسائی۔
ثریا جیسے لوگ اب “غیر ملکی” قرار دے دیے گئے ہیں، چاہے ان کے بچے کشمیری ہوں، ان کی شادیاں یہاں ہوئی ہوں یا انہوں نے زندگی کے چار دہائیاں یہاں گزاری ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:  فوائد اليوجا: 10 طرق يمكن لممارستك أن تحسن بها حياتك

یہ سوال اہم ہے:
کیا صرف سیاسی تناؤ کی بنیاد پر ایک ماں کو اس کے بچوں سے، ایک بیوی کو اس کے شوہر سے، اور ایک فرد کو اس کی برادری سے جدا کیا جا سکتا ہے؟
کیا یہ انسانیت ہے، یا سفارتی بے حسی کا ایک اور مظہر؟

اختتامیہ

ثریا کوثر کی روتی ہوئی آواز صرف ایک فرد کی پکار نہیں — یہ ان تمام ان دیکھی عورتوں کی صدائیں ہیں جو کشمیر کے گھروں، بازاروں، اسکولوں، مساجد اور دلوں میں بستی تھیں۔ ان کی جڑیں شاید کسی سرکاری کاغذ پر نہ ہوں، مگر حقیقت میں وہ کشمیر کی ہی بیٹیاں تھیں۔

جب سفارتی فیصلے انسانی المیے جنم دیں، تو ان فیصلوں کو ایک بار پھر انسانیت کے ترازو پر تولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں

Your Ad Description
کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھیوں کے گھر ڈھا دیے
پاکستان کی حکومت نے کشمیریوں کو ایک بار پھر ناراض کر دیا ہے
آزادی گائیڈ: اگر کنٹرول لائن (ایل او سی) کے قریب کشمیر میں تناؤ بڑھے تو شہری کیا کریں؟
دوستی پر 20 اشعار: رشتوں کی وہ خوشبو جو کبھی نہیں بدلتی
آزاد کشمیر: ہجیرہ میں مقامی کونسلر کے ہاتھوں میڈیکل طالبہ کے اغوا اور زیادتی کا لرزہ خیز واقعہ
TAGGED:پونچھکشمیری خواتینمسئلہ کشمیر
Share This Article
Facebook Email Print
Previous Article آزاد کشمیر: بجلی پیدا کرنے والا خطہ خود اندھیرے میں کیوں؟ آزاد کشمیر: بجلی پیدا کرنے والا خطہ خود اندھیرے میں کیوں؟
Next Article اپنے ہی وطن میں بے وطن: جموں و کشمیر سے کشمیری خاندانوں کی جبری بے دخلی اپنے ہی وطن میں بے وطن: جموں و کشمیر سے کشمیری خاندانوں کی جبری بے دخلی

سوشل میڈیا پر فالو کریں

ہماری نیوز لیٹر کے لیے سبسکرائب کریں
دنیا بھر سے تازہ ترین ہفتہ وار خبریں حاصل کرنے کے لیے ہمارا نیوز لیٹر سبسکرائب کریں۔

آپ کی رکنیت کی تصدیق کے لیے اپنا ان باکس چیک کریں۔

گلگت بلتستان: گوہرآباد ایم سی ایچ سینٹر میں لیڈی نرس کے ساتھ ہراسانی اور تشدد کا المناک واقعہ
گلگت بلتستان: گوہرآباد ایم سی ایچ سینٹر میں لیڈی نرس کے ساتھ ہراسانی اور تشدد کا المناک واقعہ
گلگت بلتستان
گھر سے بھاگ کر شادی کا ارادہ، لیکن انجام دردناک: چار لڑکوں نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
گھر سے بھاگ کر شادی کا ارادہ، لیکن انجام دردناک: چار لڑکوں نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
آزاد کشمیر
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک زخمی قدم مزاحمت کی علامت بن گیا – الیزہ اسلم طلبہ تحریک کی نئی آواز
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک زخمی قدم مزاحمت کی علامت بن گیا – الیزہ اسلم طلبہ تحریک کی نئی آواز
کالم
گلگت بلتستان کے شیعہ عالم دین کا معدنیات کی غیر قانونی استحصال کے خلاف سخت پیغام
گلگت بلتستان کے شیعہ عالم دین کا معدنیات کی غیر قانونی استحصال کے خلاف سخت پیغام
گلگت بلتستان

اسی بارے میں

سری نگر جیل سے فرار کی کہانی مقبول بٹ شہید🖊️ ضحی شبیر

سری نگر جیل سے فرار کی کہانی مقبول بٹ شہید🖊️ ضحی شبیر

By Azadi Times
5 months ago
جموں وکشمیر کے عظیم رہنما مقبول بٹ شہید کی برسی، کشمیر بھر میں جلسے، ریلیاں اور خراج عقیدت

جموں وکشمیر کے عظیم رہنما مقبول بٹ شہید کی برسی، کشمیر بھر میں جلسے، ریلیاں اور خراج عقیدت

By Azadi Times
5 months ago
انسان دوستی انسان دوستی پر اشعار   – ایک عظیم صفت

انسان دوستی انسان دوستی پر اشعار – ایک عظیم صفت

By Azadi Times
5 months ago
کشمیر میں زمینوں کی بندر بانٹ: 7,000 کنال زمین غیر مقامی کمپنیوں کو دینے کا انکشاف

کشمیر میں زمینوں کی بندر بانٹ: 7,000 کنال زمین غیر مقامی کمپنیوں کو دینے کا انکشاف

By Azadi Times
4 months ago
براق-1 کی لانچنگ قریب، کشمیر کی خلائی ٹیکنالوجی میں نئی تاریخ رقم

براق-1 کی لانچنگ قریب، کشمیر کی خلائی ٹیکنالوجی میں نئی تاریخ رقم

By Azadi Times
5 months ago
Show More
about us

دی آزادی ٹائمز کشمیر سے شائع ہونے والا ایک آزاد، غیر جانب دار اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نیوز پلیٹ فارم ہے، جو کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر کی اہم خبروں کو بغیر کسی جانبداری کے آپ تک پہنچاتا ہے۔

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجئے
  • اشتہار چلائیں
  • پرائیویسی پالیسی
  • نماز کے اوقات
  • اسلامی کتب
  • آن لائن گیمز
  • آج کا زائچہ
  • اسلامی کیلنڈر
  • ناموں کی ڈائریکٹری
  • آج ڈالر کی قیمت
  • پوسٹل کوڈز

ہم سے جڑیں

© آزادی نیوز نیٹ ورک۔ دی آزادی ٹائمز۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجئے
  • اشتہار چلائیں
  • پرائیویسی پالیسی
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?