پہلگام میں حالیہ سیاحتی حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ کشیدگی کا ایک اور انسانی پہلو سامنے آیا ہے وہ خواتین جو عشروں سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں رچ بس گئی تھیں، اب بنا کسی پناہ، کسی رشتے اور کسی سہارا کے جبری طور پر واپس پاکستان بھیجی جا رہی ہیں۔
منگل کے روز، جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ سے 11 پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے شہریوں کو اٹاری کے راستے واپس پاکستان کے زیرانتظام بھیج دیا گیا۔ ان میں شامل 55 سالہ ثریا کوثر کا روتے ہوئے الوداع کہنا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں وہ کہتی ہیں:
“میں اپنے پیچھے اپنی ساری دُنیا چھوڑ کر جارہی ہوں۔ میں نے اگر کسی کا دل دُکھایا ہو تو معاف کرنا۔ میرے لیے واپس جانا ایک قیامت ہے، کیونکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں میرا کوئی نہیں ہے۔”
ثریا کی کہانی ان ہزاروں افراد کی داستان کا عکس ہے جن کی زندگیوں نے سرحدوں کے آرپار بنتی بگڑتی سیاست کی قیمت چکائی ہے۔
ثریا کوثر 1982 میں پاکستان سے اپنے ماموں کے ساتھ پونچھ واپس آئی تھیں، جہاں اُن کی والدہ کی جائے پیدائش تھی۔ بعد میں اُن کی شادی مینڈھر کے عابد حسین شاہ سے ہوئی۔ آج ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پونچھ میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن ثریا کو، جن کی عمر کا بڑا حصہ اسی زمین پر گزرا، صرف اس بنیاد پر واپس بھیج دیا گیا کہ ان کی جائے پیدائش پاکستان تھی — وہ پاکستان جہاں نہ کوئی رشتہ دار ہے، نہ کوئی ٹھکانہ۔
مقامی افراد کے مطابق، پولیس نے پاکستان میں کسی دور کے نامعلوم رشتہ دار کا پتہ لگا کر ثریا کو روانہ کیا۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے شہریوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کی آخری مہلت 27 اپریل مقرر کی گئی تھی، اور اس کے بعد رہ جانے والوں کو زبردستی ڈیپورٹ کیا جا رہا ہے۔
ایک پالیسی، کئی ٹوٹے دل
یہ معاملہ صرف ثریا کا نہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے مطابق، مزید 34 پاکستانی شہریوں کو بھی ملک بدر کیا جا رہا ہے، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہوں نے 2010 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی واپسی و بازآبادکاری اسکیم کے تحت کشمیر کا رخ کیا تھا۔
یہ اسکیم ان کشمیری نوجوانوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھی جو 1990 کی دہائی میں عسکری تربیت کے لیے پاکستان گئے تھے، مگر بعد میں ہتھیار چھوڑ کر عام شہری زندگی اپنائی، شادیاں کیں اور بچے پیدا کیے۔ جب یہ خاندان کشمیر واپس آئے، تو انہوں نے امید کی بنیاد پر نئی زندگیاں شروع کیں۔ آج وہی خاندان، جنہیں ایک وقت میں واپس بلایا گیا تھا، اب الگ کیے جا رہے ہیں۔
جبری واپسی یا انسانی المیہ؟
سرحدوں پر سختیوں، ویزا پالیسیوں یا سفارتی فیصلوں کا بوجھ ہمیشہ عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے — خاص طور پر ان خواتین کو، جنہوں نے اپنا گھر، شوہر، بچے اور کمیونٹی کشمیر میں بسائی۔
ثریا جیسے لوگ اب “غیر ملکی” قرار دے دیے گئے ہیں، چاہے ان کے بچے کشمیری ہوں، ان کی شادیاں یہاں ہوئی ہوں یا انہوں نے زندگی کے چار دہائیاں یہاں گزاری ہوں۔
یہ سوال اہم ہے:
کیا صرف سیاسی تناؤ کی بنیاد پر ایک ماں کو اس کے بچوں سے، ایک بیوی کو اس کے شوہر سے، اور ایک فرد کو اس کی برادری سے جدا کیا جا سکتا ہے؟
کیا یہ انسانیت ہے، یا سفارتی بے حسی کا ایک اور مظہر؟
اختتامیہ
ثریا کوثر کی روتی ہوئی آواز صرف ایک فرد کی پکار نہیں — یہ ان تمام ان دیکھی عورتوں کی صدائیں ہیں جو کشمیر کے گھروں، بازاروں، اسکولوں، مساجد اور دلوں میں بستی تھیں۔ ان کی جڑیں شاید کسی سرکاری کاغذ پر نہ ہوں، مگر حقیقت میں وہ کشمیر کی ہی بیٹیاں تھیں۔
جب سفارتی فیصلے انسانی المیے جنم دیں، تو ان فیصلوں کو ایک بار پھر انسانیت کے ترازو پر تولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں