باغ، پاکستان زیر انتظام کشمیر — حسین کوٹ میرہ میں ہونے والا پولیس آپریشن ایک خوفناک دھماکے اور متعدد ہلاکتوں پر ختم ہوا۔ پولیس ذرائع کے مطابق کارروائی کے دوران دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے چار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی جان سے گیا۔ چھ اہلکار زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیے گئے ہیں۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات میں دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے، تاہم تاحال سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
یہ آپریشن زرونوش نسیم اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے کیا گیا تھا۔ ان کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے چھاپہ مارا، جس کے دوران دھماکہ ہوا۔ زرنوش نسیم کا نام اس سے قبل بھی کئی معاملات میں سامنے آ چکا ہے، اور حالیہ واقعہ نے ایک بار پھر اسے خبروں کا مرکز بنا دیا ہے۔
زرنوش نسیم کون ہے؟
زرنوش نسیم باغ کا رہائشی نوجوان ہے، جس کا نام پہلی بار گزشتہ سال اگست میں منظرِ عام پر آیا جب وہ اچانک لاپتہ ہو گیا۔ اس کی گمشدگی پر باغ میں کئی احتجاج ہوئے اور شہریوں نے مطالبہ کیا کہ اسے بازیاب کروایا جائے۔ بعد ازاں وہ منظر عام پر آ گیا، تاہم اس کی گمشدگی اور واپسی کے حالات واضح نہ ہو سکے۔
کچھ عرصے بعد، شجاع آباد پولیس چوکی پر حملے میں کانسٹیبل سجاد ریشم کی ہلاکت کے بعد زرنوش پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف زرنوش کو ایک بار پھر تنازع کا مرکز بنایا بلکہ سیکیورٹی اداروں کو اس کی سرگرمیوں پر مزید نظر رکھنے پر مجبور کر دیا۔
پولیس کی تحقیقات اور الزامات
رواں سال مارچ میں آزاد پتن سے گرفتار ہونے والے ثاقب غنی نے پولیس کی حراست میں بیان دیا کہ سجاد ریشم کے قتل میں زرنوش اور اس کے ساتھی ملوث تھے اور وہ مزید حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ثاقب کے ساتھ سفر کرنے والا ایک اور نوجوان بھی بعد میں خود پولیس کے سامنے پیش ہوا اور اپنے ویڈیو بیان میں انہی الزامات کی تصدیق کی۔
بعد ازاں دھمنی سے ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا، جس نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے زرنوش اور اس کے ساتھیوں کو اسلحہ اور خشک میوہ جات پہنچائے۔ ان بیانات کے بعد زرنوش کی گرفتاری کے لیے پولیس نے باغ میں چھاپہ مارا، جہاں فائرنگ کے تبادلے میں ایک راہ گیر جاں بحق اور دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔
مبینہ تعلقات اور سوشل میڈیا پر حمایت
پولیس کا دعویٰ ہے کہ زرنوش کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے رہا ہے۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ دوسری جانب، افغانستان میں مقیم باغ کے ایک اور رہائشی، ڈاکٹر عبدالرؤف، سوشل میڈیا پر زرنوش کے حق میں مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی زرنوش کی گمشدگی پر احتجاج کیا تھا اور حالیہ واقعے کے بعد بھی اس کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔
سرکاری مؤقف کا انتظار
واقعے کے کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی سرکاری ادارے کی جانب سے باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ اس خلا کے باعث غیر مصدقہ خبروں اور قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی ہے، جبکہ عوامی سطح پر بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔
زرنوش نسیم کی کہانی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ یہ واقعہ ریاستی اداروں، عدالتی عمل اور مقامی کمیونٹی کے درمیان اعتماد کے بحران کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ آیا زرنوش واقعی خطرہ تھا، یا وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو حالات کا شکار ہو گیا۔
جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں اور سرکاری مؤقف سامنے نہیں آتا، یہ سوالات بدستور فضا میں معلق رہیں گے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

