تل ابیب – اسرائیلی فوج نے غزہ کی جانب امداد لے کر جانے والی کشتی ’’میڈلین‘‘ کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اس پر چھاپہ مارا، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن اور دیگر عالمی شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا۔ یہ کشتی فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) کے زیر اہتمام غزہ میں جاری انسانی بحران کے لیے امدادی سامان لے کر روانہ ہوئی تھی۔
کشتی میں موجود امدادی کارکنوں نے بتایا کہ انہیں ’’اغوا‘‘ کیا گیا، اور اسرائیلی فورسز نے ’’سفید رنگ کا کیمیکل مادہ‘‘ اسپرے کیا، کمیونیکیشن جام کی، اور نفسیاتی حربے اپنائے۔ ایک ویڈیو پیغام میں گریٹا تھنبرگ نے کہا: “اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو ہم بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں۔”
اسرائیلی وزارت خارجہ کا مؤقف
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ یہ مشن محض ’’میڈیا پروپیگنڈہ‘‘ تھا اور اسے ’’سیلفی یاٹ‘‘ قرار دیا۔ وزارت نے مزید کہا کہ امدادی سامان ضبط کر لیا گیا ہے اور اسے ’’انسانی چینلز کے ذریعے‘‘ غزہ پہنچایا جائے گا۔
بین الاقوامی ردِ عمل اور قانونی سوالات
FFC اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے اسرائیلی اقدام کو ’’بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انسانی حقوق کی وکیل ہووائیدہ عرفات نے کہا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی رضاکاروں کو گرفتار کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔
غزہ میں انسانی بحران
غزہ میں 600 سے زائد دنوں کی جنگ اور 11 ہفتے سے مکمل انسانی ناکہ بندی کے باعث قحط کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک فرد فاقہ کشی کا شکار ہے۔
اسرائیل پر مسلسل دباؤ کے بعد مئی کے آخر میں امداد کی اجازت دی گئی، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ داخل ہونے والی امداد ’’نہایت ناکافی‘‘ ہے۔
پچھلا واقعہ
گزشتہ ماہ فریڈم فلوٹیلا کی ایک اور کشتی ’’کونشئینس‘‘ کو مبینہ طور پر اسرائیلی ڈرون نے مالٹا کے ساحل کے قریب نشانہ بنایا تھا۔ اگرچہ اسرائیل نے اس کی تصدیق نہیں کی، تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’’خطرناک رجحان‘‘ ہے۔
نتیجہ
غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد لے جانے والی عالمی کوششوں کو اسرائیلی روکاوٹوں کا سامنا ہے، اور حالیہ واقعہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے لیے ایک کٹھن سوال کھڑا کرتا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

