باستخدام هذا الموقع ، فإنك توافق على سياسة الخصوصية و شروط الاستخدام .
Accept
دی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمز
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
Reading: آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چھ سال: کشمیر کا سوال اب بھی باقی ہے
Share
Notification Show More
Font ResizerAa
دی آزادی ٹائمزدی آزادی ٹائمز
Font ResizerAa
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
  • صفحہ اول
  • جموں وکشمیر
  • گلگت بلتستان
  • عالمی خبریں
  • تجارت
  • صحت
  • کھیل
  • English
Have an existing account? Sign In
Follow US
© 2022 Foxiz News Network. Ruby Design Company. All Rights Reserved.
دی آزادی ٹائمز > Blog > جموں وکشمیر > آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چھ سال: کشمیر کا سوال اب بھی باقی ہے
جموں وکشمیر

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چھ سال: کشمیر کا سوال اب بھی باقی ہے

جبکہ بھارت اسے "انضمام" اور پاکستان اسے "استحصال" قرار دیتا ہے، کشمیریوں کے نزدیک ۵ اگست ٹوٹے ہوئے وعدوں اور محروم مستقبل کی علامت ہے۔

Azadi Times
Last updated: August 6, 2025 8:54 am
Azadi Times
4 months ago
Share
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے چھ سال: کشمیر کا سوال اب بھی باقی ہے
SHARE

۵ اگست ۲۰۱۹ کو بھارت کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا، جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم ہوگئی اور خطے کو دو وفاقی طور پر براہِ راست چلنے والے یونین ٹیریٹریز — جموں و کشمیر، اور لداخ — میں تقسیم کر دیا گیا۔ نئی دہلی نے اس فیصلے کو “قومی یکجہتی کا اقدام” قرار دیا۔

تاہم بہت سے کشمیریوں کے لیے یہ فیصلہ ایک زخم کی مانند تھا — یکطرفہ اقدام جس نے اُن کی سیاسی شناخت کو مٹا دیا اور ایک ایسی طویل کشمکش کو مزید گہرا کر دیا جو پہلے ہی جنگوں، عسکری قبضے اور ٹوٹے ہوئے وعدوں سے عبارت تھی۔

چھ سال بعد بھی، ۵ اگست جنوبی ایشیا کے سیاسی کیلنڈر کی سب سے متنازعہ تاریخوں میں سے ایک ہے۔ بھارت اسے “نئے سورج کا آغاز” کہہ کر مناتا ہے، جبکہ پاکستان اسے “یومِ استحصال” قرار دیتا ہے۔ اور ان بیچ، عام کشمیری آج بھی متضاد بیانیوں میں جکڑے ہوئے ہیں، اب بھی اُس وعدے کے منتظر جو عالمی برادری نے اُن سے کیا تھا: اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حقِ خودارادیت۔

حمایتی پیغام

کشمیر کی آواز بنیں

دی آزادی ٹائمز جموں و کشمیر کا واحد آزاد خبررساں ادارہ ہے جو کسی بھی حکومت، سیاسی جماعت یا نجی ادارے کے دباؤ سے آزاد ہو کر وہ خبریں سامنے لاتا ہے جو واقعی اہم ہوتی ہیں۔ آپ کا معمولی سا تعاون بھی ہمیں آزاد رکھنے اور انسانی حقوق، آزادی اور انصاف پر رپورٹنگ جاری رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

آزاد صحافت کو سپورٹ کریں

آرٹیکل 370 اور 35A کیا تھے اور کیوں اہم تھے؟

۵ اگست کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35A کی حقیقت کو جانا جائے۔

Read in English on The Azadi Times

آرٹیکل 370 بھارتی آئین میں ۱۹۴۹ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے تحت جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اپنا الگ جھنڈا رکھنے اور دفاع، خارجہ امور، مالیات اور مواصلات کے سوا باقی تمام معاملات میں مکمل خودمختاری حاصل تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین جموں و کشمیر پر تبھی لاگو ہوتے جب ریاستی اسمبلی انہیں منظور کرتی۔ یہ شق ۱۹۴۷ میں الحاق کی شرائط کو آئینی شکل دیتی تھی، جو عارضی اور مشروط قرار دیا گیا تھا جب تک کہ مسئلے کا حتمی حل نہ نکلے۔

آرٹیکل 35A، جو ۱۹۵۴ میں صدارتی حکم کے ذریعے شامل کیا گیا، ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار دیتا تھا کہ “مستقل باشندہ” کس کو کہا جائے۔ اس تعریف کے تحت صرف مستقل باشندے ہی زمین خرید سکتے تھے، سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے تھے یا تعلیمی وظائف اور فلاحی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

بہت سے کشمیریوں کے نزدیک یہ دفعات محض قانونی شقیں نہیں تھیں بلکہ ایک کمزور ڈھال تھیں جو اُن کے تشخص، زمین اور آبادی کے ڈھانچے کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھتی تھیں۔

بھارت میں ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ “پرانی مراعات” علیحدگی پسندی کو فروغ دیتی ہیں، سرمایہ کاری کو روکتی ہیں اور مکمل انضمام میں رکاوٹ ہیں۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسوں سے ان کی منسوخی کا مطالبہ کرتی رہی تھی، انہیں “عارضی” دفعات قرار دیتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:  کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار: ذہنی صحت نظر انداز، انسانیت زیر سوال

۵ اگست ۲۰۱۹ کو بھارتی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد اور صدارتی حکم کے ذریعے دونوں دفعات کو منسوخ کر دیا۔ یوں جموں و کشمیر اور لداخ دو الگ یونین ٹیریٹریز میں تقسیم ہو گئے۔

لیکن کشمیریوں کے لیے اس فیصلے کے اثرات محض آئینی نہیں تھے۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خودمختاری پر کاری ضرب کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ہتھکنڈہ بھی تھا جو اصل اور بنیادی مسئلے — حقِ خودارادیت — سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال ہوا۔

ایک کشمیری مورخ کے بقول: “آرٹیکل 370 نے ہمیں خودمختاری تو دی، آزادی نہیں۔ اس کی منسوخی نے ہمیں تکلیف دی، مگر اصل انکار وہی رہا — ہمارے اپنے مستقبل کے فیصلے کا انکار۔”

سیاسی ردِعمل: یومِ سیاہ بمقابلہ جشن

۵ اگست کی سالگرہ آج بھی کشمیر پر سیاسی تقسیم کو نمایاں کر دیتی ہے۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں نیشنل کانفرنس (این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) جیسے اپوزیشن گروپ اس دن کو “یومِ سیاہ” کے طور پر مناتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ غیر آئینی تھا اور کشمیری عوام کی رائے کے بغیر مسلط کیا گیا۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ الحاق کی شرائط سے انحراف اور اعتماد کا خون تھا۔

سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس فیصلے نے کشمیریوں کی عزت چھین لی، جبکہ محبوبہ مفتی نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام مزید بیگانگی کو جنم دے رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اسے “یومِ استحصال” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جلسے جلوس، تقاریر اور قراردادوں کے ذریعے بھارت کی مذمت کی جاتی ہے اور عالمی برادری سے مداخلت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس، بی جے پی حکومت اسے “نئے جموں و کشمیر” کا آغاز قرار دیتی ہے۔ حکومتی وزراء ترقیاتی منصوبوں، سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافے کو دلیل بناتے ہیں کہ منسوخی نے امن اور خوشحالی لائی ہے۔

لیکن عام کشمیریوں کے نزدیک ان سب بیانیوں کی خامی یہ ہے کہ ان میں اُن کی اصل خواہشات غائب ہیں۔ ان کے لیے یہ دن ریاستی درجہ بندی یا انضمام سے بڑھ کر اپنی آواز سے محرومی کی علامت ہے۔

خودارادیت پر خاموشی

۱۹۴۸ سے اب تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قراردادیں کشمیری عوام کے حقِ رائے شماری کی توثیق کر چکی ہیں۔

لیکن پچھتر سال گزرنے کے باوجود وہ ووٹ کبھی نہیں ہوا۔

وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسئلہ آئینی دفعات، دوطرفہ معاہدات اور ریاستی حیثیت کی بحثوں میں محدود کر دیا گیا۔ مگر کشمیریوں کے لیے اصل سوال وہی ہے: آزادی کے حق کا کیا بنا؟

ایک کشمیری محقق کے الفاظ میں: “آرٹیکل 370 بحال ہو بھی جائے تو خودمختاری آ سکتی ہے، مگر انتخاب کی آزادی نہیں۔ اصل مسئلہ حقِ خودارادیت ہے۔”

پاکستان کی اپنی تضادات

پاکستان عالمی سطح پر کشمیریوں کا حمایتی بن کر پیش آتا ہے، لیکن خود کشمیر نواز گروہ اس پر بھی تنقید کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  کشمیر میں سابق فوجیوں کو بطور سکیورٹی گارڈ تعینات کیا جائے گا

۲ مارچ ۱۹۴۹ کو پاکستان نے گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے ایک وفاقی منتظم کے تحت دے دیا۔ بعد میں اسے ایک نیم صوبے کی حیثیت دی گئی، حالانکہ یہ علاقہ بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ ریاست کا حصہ تھا۔

تنقید کرنے والوں کے نزدیک یہ وہی یکطرفہ طرزِ عمل ہے جس کی مذمت پاکستان بھارت میں کرتا ہے۔ اس لیے آزاد خیال کشمیری آوازیں کہتی ہیں: یہ مسئلہ صرف بھارت بمقابلہ پاکستان نہیں، بلکہ کشمیر بمقابلہ حقِ خودارادیت کا انکار ہے۔

لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کا ماحول

ہر سال ۵ اگست کو جنگ بندی لائن کے دونوں طرف متضاد مناظر دکھائی دیتے ہیں۔

سری نگر میں کرفیو جیسا ماحول، پولیس و فوج کی بھاری نفری، رہنماؤں کی نظربندی اور خاموش علامتی احتجاج۔

جبکہ مظفرآباد میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، کشمیری پرچم لہراتے ہیں اور اقوام متحدہ سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بھارتی میڈیا ترقی اور سیاحت پر زور دیتا ہے، جبکہ پاکستانی میڈیا انسانی حقوق اور فوجی تسلط کو اجاگر کرتا ہے۔

لیکن عام کشمیریوں کے لیے یہ سب ان کی روزمرہ مشکلات — بیروزگاری، پابندیاں اور غیر یقینی مستقبل — سے دور محسوس ہوتا ہے۔

کیا آرٹیکل 370 کی بحالی مسئلہ حل کر دے گی؟

یہ سوال آج بھی بھارتی زیرانتظام کشمیر کی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔ این سی اور پی ڈی پی جیسی جماعتوں کے لیے 370 اور 35A کی بحالی مرکزی ایجنڈا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ غیر آئینی اور غیرمشاورتی تھا۔

مگر تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ چاہے یہ دفعات بحال بھی ہو جائیں، اصل مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ خودمختاری بھارت کے اندر تو آ سکتی ہے، لیکن حقِ خودارادیت کا سوال وہیں باقی رہے گا۔

جیسا کہ ایک وکیل نے کہا: “آرٹیکل 370 ایک آئینی مسئلہ ہے، سیاسی حل نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔”

اقوامِ متحدہ اور بھولی بسری رائے شماری

۱۹۴۸ کی قرارداد ۴۷ نے کہا تھا کہ فوجی انخلا کے بعد کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔ بعد کی قراردادوں نے بھی یہی اصول دہرایا، مگر عمل درآمد کبھی نہ ہوا۔

آج عالمی برادری کشمیر کو زیادہ تر دوطرفہ مذاکرات یا ترقیاتی پراجیکٹس کے تناظر میں دیکھتی ہے، رائے شماری کا ذکر شاذونادر ہی ہوتا ہے۔

کشمیریوں کے لیے یہ خاموشی دھوکے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ایک کارکن نے کہا: “دنیا ہمیں لڑائی کے وقت یاد رکھتی ہے، مگر حقوق کے وقت بھول جاتی ہے۔”

نئی نسل کا رویہ

۲۰۱۹ کے بعد کشمیر کی نئی نسل میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔

سری نگر سے مظفرآباد تک نوجوان اس بات پر نالاں ہیں کہ اُن کی آواز کہیں نہیں سنی جاتی۔ دونوں ریاستیں اُن کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر اصل خواہشات کے لیے جگہ نہیں دیتیں۔

سوشل میڈیا نے ان آوازوں کو مزید طاقت دی ہے۔ “کشمیر کشمیریوں کا ہے” جیسے نعرے دنیا بھر میں نوجوانوں اور طلبہ کے درمیان مقبول ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  مقبوضہ کشمیر کی لڑکی لائن آف کنٹرول عبور کر کے آزاد کشمیر پہنچ گئی، شادی کی خواہش کا اظہار

یہ تبدیلی اس جدوجہد کو نئی جہت دیتی ہے: اب یہ صرف بھارت یا پاکستان کے ساتھ انضمام کا سوال نہیں، بلکہ اپنی مرضی کی آزادی کا معاملہ ہے۔

گلگت بلتستان کا کردار

کشمیر کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے گلگت بلتستان کی کہانی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۹۴۹ میں اسے الگ کر کے وفاقی انتظام کے تحت دینا ایک ایسا عمل تھا جس نے یکطرفہ فیصلوں کی بنیاد رکھی۔ آج بھی جی بی کے عوام آئینی حقوق اور نمائندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

کشمیری کارکنوں کے نزدیک یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ریاستوں نے کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر نقشہ بدلا ہے۔

اس کے باوجود، آزاد جموں و کشمیر اور جی بی کے درمیان ایک انوکھا رشتہ باقی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیاں دونوں طرف ابھری ہیں۔ حالیہ دنوں میں سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے گلگت جا کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی آمنہ اللہ خان کی قبر پر حاضری دی — ایک علامتی قدم جو مشترکہ جدوجہد کی جھلک ہے۔

سوشل میڈیا نے بھی ان روابط کو مضبوط کیا ہے۔ اب دونوں خطوں کے کارکن، صحافی اور طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ مہمات چلاتے ہیں۔

یہی نہیں، جموں و کشمیر کی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے شوٹر ٹنل کی تعمیر — جو اے جے کے اور جی بی کو ملائے گی — کو اپنے مطالبات میں شامل کیا ہے۔ یہ بڑھتے تعلقات اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ سیاسی سرحدوں کے باوجود کشمیری اور گلگتی عوام کے تجربات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

آگے کا راستہ

بھارت کی سپریم کورٹ نے ۲۰۲۳ میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا مگر ریاستی درجہ بحال کرنے اور انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ اگست ۲۰۲۵ تک انتخابات بدستور ملتوی ہیں اور ایک نئی درخواست زیرِ سماعت ہے۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران نے مسئلہ کشمیر کو محض علامتی سطح پر محدود کر دیا ہے۔

عالمی سطح پر بھی کشمیر شاذ و نادر ہی خبر بنتا ہے — وہ بھی سرحدی جھڑپوں یا انسانی حقوق کی رپورٹس میں۔

عام کشمیریوں کے لیے یہ سب ترکِ تعلق اور تنہائی کا احساس بڑھاتا ہے۔

نامکمل سوال

چھ سال بعد بھی، کشمیر ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔

بھارت اسے “حتمی انضمام” قرار دیتا ہے۔
پاکستان اسے “یومِ استحصال” کہتا ہے۔
لیکن کشمیریوں کے لیے یہ دن وعدوں کی ناکامی اور مستقبل کے انکار کی علامت ہے۔

اصل مطالبہ نہ تو محض 370 اور 35A کی بحالی ہے، نہ دور دراز دارالحکومتوں سے ملنے والی رسمی ہمدردی۔ اصل مطالبہ ایک بنیادی حق ہے — حقِ خودارادیت۔

یہ حق عالمی قانون میں درج ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بارہا دہرایا گیا ہے، اور نسل در نسل کشمیریوں کی زبان پر ہے۔ پھر بھی یہ ابھی تک نامکمل ہے۔

جب تک یہ حق ایمانداری سے، عالمی سطح پر، اور کشمیریوں کی اپنی آواز کے ساتھ تسلیم نہیں کیا جاتا، ۵ اگست کبھی جشن یا سوگ کا دن نہیں بنے گا — یہ ایک نامکمل تاریخ کی علامت بنا رہے گا۔

📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں

اپنی کہانی بھیجیں

اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

ابھی بھیجیں
معراج ملک کی پی ایس اے کے تحت گرفتاری: جمہوریت اور اختلافِ رائے پر نیا سوال
امتیاز اسلم کا جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی پر بھارتی فنڈنگ کے الزامات کو مسترد، قانونی کارروائی کا اعلان
جشنِ میلادالنبی ﷺ: جموں، کشمیر اور لداخ میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا
کشمیری نژاد شبانہ محمود برطانیہ کی وزیر داخلہ بن گئیں
کشمیر میں منتخب وزیر اعلیٰ کی نظر بندی: شہداء کے دن پر عوامی یادداشت کو کچلنے کی کوشش؟
TAGGED:آرٹیکل 370لائن آف کنٹرولیومِ سیاہ
Share This Article
Facebook Email Print
Previous Article کوہستان: 28 سال بعد گلیشیئر سے لاپتہ شخص کی لاش برآمد کوہستان: 28 سال بعد گلیشیئر سے لاپتہ شخص کی لاش برآمد
Next Article مہاجرین کی 12 نشستیں: آزاد کشمیر کی سیاست، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور آئینی تنازعہ مہاجرین کی 12 نشستیں: آزاد کشمیر کی سیاست، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور آئینی تنازعہ

سوشل میڈیا پر فالو کریں

ہماری نیوز لیٹر کے لیے سبسکرائب کریں
دنیا بھر سے تازہ ترین ہفتہ وار خبریں حاصل کرنے کے لیے ہمارا نیوز لیٹر سبسکرائب کریں۔

آپ کی رکنیت کی تصدیق کے لیے اپنا ان باکس چیک کریں۔

خالہ کے گھر جانے والی14 اور 11سالہ بہنوں کو لفظ کے بہانے اغواہ کر کے پوری رات جنسی زیادتی کرنے والا وحشی درندہ گرفتار
خالہ کے گھر جانے والی14 اور 11سالہ بہنوں کو لفظ کے بہانے اغواہ کر کے پوری رات جنسی زیادتی کرنے والا وحشی درندہ گرفتار
آزاد کشمیر
“37 ہزار تنخواہ کا وعدہ – کیا استحصالی نظام واقعی ٹوٹے گا؟”
“37 ہزار تنخواہ کا وعدہ – کیا استحصالی نظام واقعی ٹوٹے گا؟”
آزاد کشمیر
گلگت بلتستان: گوہرآباد ایم سی ایچ سینٹر میں لیڈی نرس کے ساتھ ہراسانی اور تشدد کا المناک واقعہ
گلگت بلتستان: گوہرآباد ایم سی ایچ سینٹر میں لیڈی نرس کے ساتھ ہراسانی اور تشدد کا المناک واقعہ
گلگت بلتستان
گھر سے بھاگ کر شادی کا ارادہ، لیکن انجام دردناک: چار لڑکوں نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
گھر سے بھاگ کر شادی کا ارادہ، لیکن انجام دردناک: چار لڑکوں نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
آزاد کشمیر

اسی بارے میں

کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار: ذہنی صحت نظر انداز، انسانیت زیر سوال

کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار: ذہنی صحت نظر انداز، انسانیت زیر سوال

By Azadi Times
5 months ago
کشمیر: پن کے بجلی منصوبے سندھ آبی معاہدہ کی معطلی اور کشمیر کے پانی پر نئی کشمکش

کشمیر: پن کے بجلی منصوبے سندھ آبی معاہدہ کی معطلی اور کشمیر کے پانی پر نئی کشمکش

By Azadi Times
6 months ago
کمانڈ اینڈ کنٹرول کی ناکامی یا سیاسی دباؤ؟ مظفرآباد میں تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او راجہ سہیل کی اچانک برطرفی پر سوالات کھڑے ہو گئے

کمانڈ اینڈ کنٹرول کی ناکامی یا سیاسی دباؤ؟ مظفرآباد میں تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او راجہ سہیل کی اچانک برطرفی پر سوالات کھڑے ہو گئے

By Azadi Times
6 months ago
شملہ معاہدہ: کشمیر پر امن یا خاموش غلامی؟ 50 سالہ معاہدے کا تجزیہ، اختتام اور نئی حقیقتیں

شملہ معاہدہ: کشمیر پر امن یا خاموش غلامی؟ 50 سالہ معاہدے کا تجزیہ، اختتام اور نئی حقیقتیں

By Azadi Times
6 months ago
UN Resolutions on Kashmir کشمیر تنازع: اقوام متحدہ کی قراردادیں، تاریخی پس منظر، بنیادی پیغام اور آج کی اہمیت

UN Resolutions on Kashmir کشمیر تنازع: اقوام متحدہ کی قراردادیں، تاریخی پس منظر، بنیادی پیغام اور آج کی اہمیت

By Azadi Times
6 months ago
Show More
about us

دی آزادی ٹائمز کشمیر سے شائع ہونے والا ایک آزاد، غیر جانب دار اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نیوز پلیٹ فارم ہے، جو کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان سمیت دنیا بھر کی اہم خبروں کو بغیر کسی جانبداری کے آپ تک پہنچاتا ہے۔

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجئے
  • اشتہار چلائیں
  • پرائیویسی پالیسی
  • نماز کے اوقات
  • اسلامی کتب
  • آن لائن گیمز
  • آج کا زائچہ
  • اسلامی کیلنڈر
  • ناموں کی ڈائریکٹری
  • آج ڈالر کی قیمت
  • پوسٹل کوڈز

ہم سے جڑیں

© آزادی نیوز نیٹ ورک۔ دی آزادی ٹائمز۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجئے
  • اشتہار چلائیں
  • پرائیویسی پالیسی
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?