مظفرآباد (خصوصی رپورٹ) — آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ ڈپٹی سیکرٹری کو ایک خاتون طالبہ کے ساتھ نازیبا حالت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق، مذکورہ افسر نے ایک کرائے کے شیلٹر میں طویل عرصے سے یہ خفیہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں، جہاں مبینہ طور پر وہ مختلف خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بناتا رہا۔
گرفتار کی جانے والی خاتون، جامعہ کشمیر کی پانچویں سمسٹر کی بائیو میڈیکل اسٹوڈنٹ بتائی گئی ہے، جس نے گرفتاری کے وقت اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی۔ مقامی شہریوں کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے دونوں کو برہنہ حالت میں رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ بعد ازاں، میڈیکل معائنے میں دونوں کی ‘رضامندی’ کی تصدیق کی گئی، تاہم سوال یہ ہے کہ ایسی رضامندی ایک طاقتور سرکاری افسر اور کم عمر طالبہ کے درمیان کیسے قائم ہوتی ہے؟
اپنے ہی وطن میں بے وطن: جموں و کشمیر سے کشمیری خاندانوں کی جبری بے دخلی
یہ کوئی الگ واقعہ نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک برٹش کشمیری خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ آزاد کشمیر میں دوران حراست ایک پولیس افسر اور بعد ازاں عدالتی کارروائی کے دوران بعض جج صاحبان کی طرف سے بھی اسے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ معاملہ برطانوی میڈیا میں بھی موضوعِ بحث بنا تھا، تاہم اب تک نہ کوئی شفاف تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا گیا۔
اسی طرح ضلع کوٹلی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شذمہ حلیم نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈی ایس پی باغ نے انہیں مختلف ذرائع سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ خواتین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر آواز نہ اٹھائیں۔
نظامِ انصاف یا تحفظِ طاقتور؟
یہ واقعات صرف چند مثالیں ہیں جو اس بڑے المیے کی عکاسی کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں اعلیٰ سرکاری عہدے رکھنے والے افراد کو اکثر قانونی و اخلاقی احتساب سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ جب ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ ہی قانون شکنی میں ملوث ہوں تو عام شہریوں، خاص طور پر خواتین کے لیے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

