مسئلہ کشمیر: ایک عالمی تنازع کی داستان
مسئلہ کشمیر برصغیر پاک و ہند کا ایک قدیم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، جو تقسیم ہند کے وقت سے آج تک عالمی سطح پر زیر بحث ہے۔ یہ تنازع نہ صرف دو ممالک، پاکستان اور بھارت، کے درمیان اختلافات کی وجہ ہے بلکہ اس نے جنوبی ایشیا کے امن و امان کو بھی متاثر کیا ہے۔ یہ مسئلہ، جس کی جڑیں تاریخی، سیاسی اور مذہبی حوالوں میں پیوستہ ہیں، آج بھی لاکھوں کشمیریوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔
تاریخی پس منظر
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت، برطانوی راج نے یہ فیصلہ کیا کہ 562 خودمختار ریاستوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہنے کا انتخاب کریں۔ ریاست جموں و کشمیر، جس کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی، ایک اہم اور اسٹریٹجک مقام پر واقع تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ، جو اس وقت ریاست کے حکمران تھے، نے خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ فیصلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ قبائلی حملوں اور داخلی دباؤ کے باعث مہاراجہ نے بھارت سے مدد طلب کی اور بدلے میں بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔
اقوام متحدہ کی مداخلت
1948 میں، یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کے لیے ایک قرارداد منظور کی، جس کے تحت کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جانا تھا۔ لیکن یہ قرارداد آج تک نافذ العمل نہیں ہو سکی۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے اس معاملے پر مختلف تاویلات پیش کیں، لیکن کشمیری عوام کو ان کا حق نہیں دیا گیا۔
کشمیری عوام کی مشکلات
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ بھارتی افواج کی بھاری موجودگی، کرفیو کا نفاذ، پیلٹ گنز کے استعمال اور نوجوانوں کی گرفتاریاں روزمرہ کا معمول ہیں۔ کشمیری عوام مسلسل خوف و ہراس کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور لاکھوں افراد معذور ہو چکے ہیں۔ خواتین کی بے حرمتی، بچوں کی تعلیم کی بندش اور معاشی ناکہ بندی جیسے عوامل نے کشمیری عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔
پاکستان کا موقف
پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا حامی ہے اور اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو ہر عالمی فورم پر اجاگر کیا ہے اور کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
بھارت کا موقف
بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور کسی بھی بین الاقوامی مداخلت کو مسترد کرتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، جس کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے، اور کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں۔
کشمیر کی آزادی کا خواب
اگرچہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کو بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن کشمیری قوم اس معاملے پر پریشان ہے۔ زیادہ تر کشمیری کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے بلکہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے حامی ہیں۔ ریاست کی سب سے بڑی مزاحمتی پارٹی، جموں و کشمیر لبریشن کا منشور بھی یہی ہے کہ کشمیر کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنایا جائے۔ یہ خواب ہر کشمیری کے دل میں بسا ہوا ہے کہ وہ اپنے وطن کو آزاد دیکھیں۔ اسی لیے کشمیری عوام دل سے اقوام متحدہ کے استصواب رائے کے اس آپشن کے ساتھ متفق نہیں ہیں جو انہیں صرف بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق تک محدود رکھتا ہے۔ کشمیری قوم کی جدوجہد صرف ایک آزاد وطن کے لیے ہے، اور یہی ان کے دلوں کی آواز ہے۔
عالمی برادری کی خاموشی
عالمی برادری مسئلہ کشمیر پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بڑی طاقتیں، جیسے امریکہ، چین، اور یورپی یونین، اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے پیش نظر اس تنازع کو نظرانداز کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے صرف بیانات جاری کرنے تک محدود ہیں، جس کی وجہ سے کشمیری عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیریوں کی مزاحمت
کشمیری عوام نے ہمیشہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ ان کی مزاحمت تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ 1931 کی تحریک، 1947 کی جدوجہد، اور 1989 کے بعد سے جاری آزادی کی تحریک، سب اس بات کی گواہ ہیں کہ کشمیری عوام اپنے حق کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ حالیہ برسوں میں، نوجوان نسل نے سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی حالت زار سے آگاہ کیا ہے۔
خطے پر اثرات
مسئلہ کشمیر نے جنوبی ایشیا کی سیاست، معیشت اور امن و امان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان متعدد جنگیں ہو چکی ہیں، جن میں 1947، 1965، 1971، اور 1999 کی کارگل جنگ شامل ہیں۔ یہ تنازع خطے میں ترقی اور استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
حل کی راہ
مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دینا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ خطے میں امن و امان کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کریں اور کشمیری عوام کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ عالمی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اس تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

