سکردو / بین الاقوامی ڈیسک – اپریل 2025 — چین میں حال ہی میں “بارڈر ٹریڈ زون چائنا” کے تحت ایک تین روزہ سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گلگت بلتستان کے تاجروں اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔ اگرچہ اس کانفرنس کو معاشی ترقی کے تناظر میں پیش کیا گیا، لیکن یہ اقدام ایک متنازعہ خطے — جموں و کشمیر — میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔
کانفرنس میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے چیمبر آف کامرس کے نمائندگان، معروف کاروباری شخصیات، اور صوبائی وزرا نے شرکت کی۔ چین کے سرمایہ کاروں اور گلگت بلتستان کے وفد کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں اربوں روپے مالیت کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
چینی حکام نے اعلان کیا کہ بارڈر کے قریبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے امپورٹ و ایکسپورٹ پر مکمل ٹیکس چھوٹ دی جائے گی، اور تاجروں کو تاشغورغن میں دکانیں اور رہائش فراہم کی جائے گی۔ ان اقدامات کو چین کی اقتصادی حکمت عملی کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے وہ متنازعہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
اگرچہ مقامی چیمبر آف کامرس کے صدر اشرف حسین اور تاجر عباس نمبردار نے کانفرنس کے معاشی فوائد پر امید کا اظہار کیا، لیکن آزاد مبصرین اور کشمیری عوام کی رائے یہ ہے کہ ایسی سرمایہ کاری عوامی مشاورت کے بغیر سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، جموں و کشمیر کے اس خطے کا حصہ ہے جس کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے ذریعے ہونا باقی ہے۔ اس تناظر میں، کسی بھی ملک کی جانب سے گلگت بلتستان میں یکطرفہ سرمایہ کاری یا معاشی معاہدے بین الاقوامی قوانین اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
چین اور گلگت بلتستان کے چیمبرز آف کامرس کے درمیان سالانہ چار اجلاسوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے — دو چین میں اور دو گلگت بلتستان میں — جس کی اگلی نشست ہنزہ میں منعقد ہو گی۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

