مظفرآباد، کشمیر — تاریخ کی گہرائی میں جا کر اگر ہم کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے اہم تجارتی راستوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مظفرآباد اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ قدیم وقتوں میں ایک اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ کشمیر کا پورا خطہ ایک قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہے، لیکن یہ جغرافیائی طور پر ایک ایسا مقام بھی رہا ہے جو مختلف ثقافتوں، تجارتوں، اور فوجی لشکروں کی آمدورفت کا مرکز تھا۔ اس مقالے میں ہم مظفرآباد کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کریں گے، خاص طور پر اس علاقے کے پرانے تجارتی راستوں اور انگریز دور میں سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے۔
کشمیر کے قدیم تجارتی راستے اور ان کی اہمیت
کشمیر کی تاریخ میں کئی اہم تجارتی راستے اہمیت رکھتے ہیں، جن میں سے ایک قدیم راستہ پکھلی دھمتوڑ، بیرن گلی، پٹن، راڑہ، ڈنہ، چکار اوڑی اور سری نگر کا راستہ تھا۔ یہ وہ راستے تھے جن سے لوگ اور لشکر اپنی منزلوں کی طرف جاتے تھے۔ اس راستے کی اہمیت اس وجہ سے تھی کہ یہ دریائے جہلم کے پار کرنے میں آسانی فراہم کرتا تھا۔ پٹن گھاٹ پر دریا پار کرنے کے لئے مقامی افراد تارو قباہل کا استعمال کرتے تھے جو اس کام میں ماہر تھے۔ اس کے علاوہ قدیم دور میں مشکیزوں اور دیگر تکنیکی طریقوں سے دریا پار کرنا معمول تھا۔
دریائے جہلم اور اس کا جغرافیائی کردار
دریائے جہلم ایک اہم جغرافیائی رکاوٹ تھا جس کے دونوں کنارے کشمیر کی تجارت، ثقافت اور سیاست کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے تھے۔ ابتدائی طور پر اس دریا کو پار کرنے کی دشواریاں تھیں، لیکن جیسے ہی پلوں کی تعمیر شروع ہوئی، اس علاقے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ خاص طور پر دریا کے بایاں کنارہ اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ کشمیر کے دوسرے حصوں تک رسائی ممکن ہو سکے۔ کوہالہ تک کا راستہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کشمیر کے دیگر علاقوں کی نسبت یہ راستہ زیادہ آسان اور جغرافیائی طور پر موزوں تھا۔
1859 میں راولپنڈی-سری نگر روڈ کی تعمیر
سال 1859 کے بعد راولپنڈی اور سری نگر کے درمیان جو تجارتی راستہ تھا، وہ بہت اہم ہو گیا تھا۔ اس دور میں انگریزوں نے اس راستے کی تعمیر پر بہت توجہ دی تھی اور مختلف مراحل میں اسے مکمل کیا۔ انگریزوں کی حکومت نے 1860 سے 1870 تک کے عرصے میں راولپنڈی سے مری اور مری سے کوہالہ تک کچی سڑک کی تعمیر مکمل کی۔ یہ سڑک راولپنڈی اور سری نگر کے درمیان تجارتی اور عسکری سفر کے لئے اہم بن گئی۔
کوہالہ پل اور سڑک کی تعمیر کا عمل
1871 میں، پنجاب حکومت نے کوہالہ پل کی تعمیر مکمل کی۔ اس پل کی تعمیر سے نہ صرف مقامی لوگوں کی زندگی آسان ہوئی، بلکہ اس سے پورے خطے کی معیشت میں بھی نمایاں بہتری آئی۔ اس پل نے دریائے جہلم کو پار کرنے کا ایک نیا ذریعہ فراہم کیا۔ اسی دوران، کوہالہ سے دومیل تک اور مزید آگے کشمیر کے وادیوں تک سڑک کی تعمیر کا عمل جاری رہا۔
سڑکوں کی توسیع: دومیل سے سری نگر تک
دومیل اور سری نگر کے درمیان 126 کلومیٹر طویل سڑک کی توسیع کا کام انگریزوں نے مکمل کیا۔ اس سڑک کی توسیع کے کام کا ٹھیکہ ایک انگریز تعمیراتی فرم کو دیا گیا تھا، جس نے صرف دو برسوں میں اس سڑک کو مکمل کیا۔ اس سڑک کی توسیع سے پورے خطے میں تجارت، لوگوں کی آمدورفت اور فوجی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا۔ یکے، بگھیاں، تانگے، چھکڑے اور بیل گاڑیاں اس سڑک پر چلنے لگیں اور اس کی اہمیت بڑھ گئی۔
کسٹم ہاوس اور تجارتی عمل
مظفرآباد کی تاریخ میں ایک اہم مقام کسٹم ہاوس کا بھی ہے۔ ریاست کشمیر کا اپنا کسٹم ڈیپارٹمنٹ تھا، جہاں پر محصول کی وصولی اور سامان کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ اس کے لیے ایک مخصوص چوکی قائم کی گئی تھی، جہاں ہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔ HALT کے لفظ کا مطلب تھا کہ تمام تجارتی سامان کو یہاں روک کر اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ اس کسٹم ہاوس میں سامان کی وزن کی جانچ کے بعد اور محصول کی وصولی کے بعد ایک خام پرچی (Transit receipt) جاری کی جاتی تھی، جو اس بات کا ثبوت ہوتی تھی کہ مال اب ریاست کشمیر میں داخل ہو سکتا ہے یا باہر جا سکتا ہے۔
تصویر کا تاریخی پس منظر

زیر نظر تصویر 1937 کی ہے، جو کشمیر کے قدیم تجارتی راستوں اور کسٹم ہاوس کی سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ویڈیو میں کانٹا ہاوس اور محصول چوکی کا منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے اس دور کے تجارتی عمل کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو کشمیر کی پرانے تجارتی راستوں اور اس دور کی ٹرانزٹ پالیسیوں کی تفصیل فراہم کرتی ہے، جو آج کے دور میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔
نتیجہ اور موجودہ دور میں کشمیر کے تجارتی راستے
آج کے دور میں، کشمیر کی معاشی ترقی اور سیاحت میں بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں، مگر اس علاقے کے قدیم راستوں کی تاریخ میں جو اہمیت ہے، وہ کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ راولپنڈی-سری نگر روڈ اور کوہالہ پل جیسے تاریخی مقامات اب بھی کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان کی تعمیر کی کہانیاں اس خطے کی ثقافت اور معیشت کی عکاسی کرتی ہیں۔
شکریہ
تحریر و تحقیق:
جواد خورشید کیانی
موضع شہر خاص، ضلع مظفرآباد
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

