کشمیر، جسے “جنت نظیر” کہا جاتا ہے، 1947 سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لیکن اس تنازعے کا سب سے بڑا شکار کشمیری عوام ہیں، جو اپنی شناخت، آزادی، اور بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ مضمون کشمیریوں کی آواز کو مرکز میں رکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ وہ دونوں ممالک سے کیا چاہتے ہیں۔
1947 سے کشمیر کی تقسیم کی مختصر تاریخ
1947 میں برطانوی ہند کی تقسیم کے بعد کشمیر کا مسئلہ دنیا کے سب سے پرانے تنازعات میں تبدیل ہوگیا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر آزاد رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن پاکستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر کے حملے اور عوامی بغاوت کے بعد انہوں نے ہندوستان سے الحاق کا دستخط کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ خطہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں (1947-48، 1965، 1999)، اقوام متحدہ کی نامکمل قراردادیں، اور 1972 کے شملہ معاہدے کی ناکامی کا شکار بنا رہا۔ 2019 میں ہندوستان نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیر کی آئینی خودمختاری کو تحلیل کر دیا، جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) میں بھی سیاسی حقوق کا بحران جاری ہے۔ آج کشمیر کی سرحدیں نہ صرف فوجی بارودی سرنگوں بلکہ نسلوں پر محیط غم، امید، اور ناانصافیوں سے بھی تقسیم ہیں۔ یہ تنازع صرف زمین کا نہیں، بلکہ 1.4 کروڑ کشمیریوں کے جذبات، شناخت، اور مستقبل کا بھی ہے۔
کشمیری عوام کی بنیادی خواہشات
کشمیریوں کی اکثریت کا مطالبہ واضح ہے: خودمختاری۔ 1948 کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، کشمیری عوام کو یہ حق دیا جانا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کا فیصلہ خود کریں۔ لیکن آج تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ، کشمیری مندرجہ ذیل چیزوں کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں:
- انسانی حقوق کا احترام: فوجی کارروائیوں، گمشدگیوں، اور جبر کی روک تھام۔
- معاشی ترقی: بے روزگاری اور پسماندگی کے خاتمے کے لیے اقدامات۔
- ثقافتی شناخت کا تحفظ: کشمیری زبان، رسم و رواج، اور ورثے کو خطرات سے بچانا۔
ہندوستان سے کشمیریوں کی اُمیدیں
- فوجی قبضے کا خاتمہ:
- کشمیر وادی دنیا کی سب سے زیادہ فوجی گھنی آبادی والا خطہ ہے۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ ہندوستان اپنی فوجی موجودگی کم کرے اور AFSPA (فوجی خصوصی اختیارات کا قانون) ختم کرے، جو فوج کو گرفتاریوں اور فائرنگ کا غیر محدود اختیار دیتا ہے۔
- سیاسی خودمختاری کی بحالی:
- 2019 میں ہندوستان نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ کشمیری اس فیصلے کو اپنے سیاسی حقوق پر حملہ سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کو دوبارہ اپنا آئین بنانے کا حق دیا جائے۔
- مکمل شہری آزادیاں:
- انٹرنیٹ بندشوں، احتجاجوں پر پابندیوں، اور میڈیا سنسرشپ کا خاتمہ۔
- ماحولیاتی تحفظ:
- کشمیر کے قدرتی وسائل (جیسے دریاؤں، جنگلات) کا استحصال روکا جائے۔
پاکستان سے کشمیریوں کی اُمیدیں
- تنازعے کو اپنا “پراکسی جنگ” نہ بنانا:
- کشمیری پاکستان کی مدد کے شکر گزار ہیں، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ان کی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان کی “پراکسی جنگ” میں تبدیل کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کشمیری عوام کی آواز کو مرکز میں رکھے۔
- آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حقوق:
- پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) کے لوگ بھی اپنے سیاسی حقوق مانگ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں مکمل شہری حقوق دیے جائیں اور ان کے علاقوں میں “عارضی حکومت” کا خاتمہ ہو۔
- انسانی حقوق کی علمبرداری:
- پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر کنٹرول کشمیر میں بھی انسانی حقوق کے معیارات بلند کرے۔
- بین الاقوامی سفارت کاری:
- پاکستان کو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر زیادہ موثر طریقے سے اٹھانا چاہیے۔
ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی پوزیشن: ایک موازنہ
پہلو | ہندوستان | پاکستان |
---|---|---|
کشمیر کا دعویٰ | “کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔” | “کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔” |
حل کا طریقہ | “کشمیر ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔” | “اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہو۔” |
مقامی آبادی کا موقف | “کشمیریوں کو ہندوستانی آئین میں حقوق ملیں” | “کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے۔” |
کشمیر کی قوم پرست تحریکیں: جے کے ایل ایف، خودمختار کشمیر، اور عوامی جدوجہد
کشمیر کی آزادی کی تحریک میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) ایک اہم کردار ادا کرتا آیا ہے، جس نے 1989 کی بغاوت کے دوران “خودمختار کشمیر” کے نعرے کو عالمی سطح پر اُبھارا۔ یہ گروپ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر کو ایک آزاد مملکت کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری طرف، خودمختار کشمیر تحریک کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کشمیری عوام کو اپنے وسائل، خارجہ پالیسی، اور دفاع کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔
ان کے علاوہ، حریت کانفرنس جیسی قوم پرست جماعتیں بھی ہیں جو ہندوستان کے ساتھ کسی قسم کے الحاق کو مسترد کرتی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ دھڑے پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کے درمیان اکثر اختلافات رہے ہیں کچھ گروہ مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، تو کچھ پرامن سیاسی حل کے حامی ہیں۔ مثال کے طور پر، جے کے ایل ایف کے بانی مقبول بٹ نے کہا تھا: “کشمیر کی لڑائی ہتھیاروں کی نہیں، بلکہ انصاف کی ہے۔” تاہم، ان تحریکوں کو دونوں ممالک کی طرف سے دباؤ، گرفتاریوں، اور مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ان کی آواز کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
کشمیری نوجوانوں کی آواز
سری نگر کی طالبہ ثناء کہتی ہیں: “ہم نہ ہندوستان کے فوجی کیمپ چاہتے ہیں، نہ پاکستان کے جھنڈے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے۔”
گلگت کے کارکن عارف کا کہنا ہے: “پاکستان ہمیں صرف ایک نمبر کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اپنے وسائل پر کنٹرول چاہیے۔”
امن کی راہ: کیا حل ممکن ہے؟
کشمیری دانشوروں کے مطابق، حل کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
- کشمیریوں کو مرکز میں رکھا جائے: کوئی بھی فیصلہ کشمیری رہنماؤں کے بغیر نہ ہو۔
- انسانی حقوق کی بحالی: دونوں اطراف میں فوجی ظلم رکھنا۔
- معاشی تعاون: خطے میں تجارت اور سیاحت کو فروغ دینا۔
- بین الاقوامی ثالثی: اقوام متحدہ یا غیر جانبدار ممالک کی مدد سے بات چیت۔
نتیجہ: کشمیر کی قسمت کشمیری طے کریں
کشمیر کا مسئلہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا نہیں، بلکہ 1.4 کروڑ کشمیریوں کا مستقبل ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کی خواہشات کو سنجیدگی سے لیں اور ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ جیسا کہ مشہور کشمیری شاعر رشید ناز نے کہا تھا:
“یہاں کی مٹی میں دفن ہے ہر اک ذرہ آگ کا
کشمیر کی آزادی کا سورج ضرور نکلے گا!”
کمنٹس میں بتائیں: آپ کے خیال میں کشمیر کے مسئلے کا حتمی حل کیا ہو سکتا ہے؟
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں