تحقیقی رپورٹ | دی آزادی ٹائمز | مظفرآباد
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک شخص عوامی ایکشن کمیٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ کشمیر کے اندر ایکشن کمیٹی کو عوامی مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لہٰذا یہ تنقید ایک نئے تنازعے کا باعث بن گئی ہے۔ تنقید کرنے والے شخص کا نام غلام اللہ اعوان ہے، اور ان کے بارے میں آن لائن کئی قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔
دی آزادی ٹائمز نے آزادانہ تحقیق کے بعد غلام اللہ اعوان کے پس منظر، سیاسی وابستگی، صحافتی سرگرمیوں اور اس وائرل ویڈیو کے ممکنہ اثرات پر ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے۔
غلام اللہ اعوان: ابتدائی زندگی اور سماجی سرگرمیاں

غلام اللہ اعوان کا تعلق لیپا ویلی سے ہے، جو خطہ جہلم کے سرحدی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی عمر تقریباً 35 سے 37 برس کے درمیان ہے۔ انہوں نے ابتدائی طور پر صحافتی کردار سے اپنی شناخت بنائ۔ انہوں نی لا کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے اور کبھی کبھاراگر کیس ہو تو عدالت بھی جاتے ہیں ۔
سیاست میں قدم: مسلم لیگ ن سے تحریک انصاف تک
غلام اللہ اعوان کا سیاسی سفر نسبتاً غیر روایتی اور متغیر رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں انہوں نے مبینہ طور پر لیپا ویلی میں اس وقت کے حکومتی نمائندے ڈاکٹر مصطفیٰ بصیر عباسی کے خلاف ایک احتجاج کی قیادت کی تھی۔ اس احتجاج میں چند مقامی افراد بھی شامل تھے، تاہم موقع پر کشیدگی اور تشدد کے واقعات پیش آئے، جس کے بعد غلام اللہ اور ان کے ساتھیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بعد ازاں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (PTI) میں شمولیت اختیار کی، لیکن موجودہ وقت میں PTI خود پاکستان اور کشمیر دونوں سطح پر اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ غلام اللہ اعوان کی موجودہ وابستگی مبہم ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اب کسی پارٹی کے متحرک کارکن نہیں رہے، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ وہ کسی نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں۔
صحافت میں دوبارہ شمولیت: “کشمیر ڈیجیٹل” کے رپورٹر
حالیہ مہینوں میں غلام اللہ اعوان نے صحافت کا رخ کیا اور چند ماہ قبل انہوں نے “کشمیر ڈیجیٹل” کے نام سے چلنے والے ایک میڈیا پلیٹ فارم کو جوائن کیا۔ یہ چینل اسلام آباد کے وکیل منصور عباسی کی ملکیت ہے۔ غلام اللہ اعوان اس پلیٹ فارم کے ساتھ بطور فیلڈ رپورٹر منسلک ہیں اور مختلف مواقع پر ویڈیوز، انٹرویوز اور زمینی رپورٹس میں متحرک نظر آتے ہیں۔
کشمیر ڈیجیٹل بظاہر ایک نووارد میڈیا آؤٹ لیٹ ہے، جو آن لائن ویڈیوز اور سوشل میڈیا رپورٹس کے ذریعے خبروں کی کوریج کرتا ہے۔ تاہم اس کی غیرجانبداری، ایڈیٹوریل کنٹرول، اور صحافتی اخلاقیات پر کئی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی پر تنقید: اظہارِ رائے یا کسی ایجنڈے کا حصہ؟
غلام اللہ اعوان کی وائرل پوسٹ میں انہوں نے عوامی ایکشن کمیٹی پر کئی سوالات اٹھائے، جن میں قیادت، فیصلوں میں شفافیت اور تحریک کے طریقہ کار پر تنقید شامل ہے۔ انہوں نے یہ تاثر دیا کہ کمیٹی عوامی مفاد سے زیادہ ذاتی اور بیرونی ایجنڈوں پر کام کر رہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنقید خالصتاً ذاتی رائے پر مبنی ہے یا کسی مخصوص سیاسی، انتظامی یا انٹیلیجنس پس منظر کی نمائندگی کرتی ہے؟
کمیٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو دراصل ایک مربوط مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد مقامی عوامی تحریکوں کو بدنام کرنا اور تقسیم پیدا کرنا ہے۔ ان کے مطابق، جب بھی کوئی تحریک مقبول ہونے لگتی ہے، مخصوص عناصر اس کے خلاف رائے عامہ کو منقسم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آزاد صحافت اور سیاسی تنقید: توازن کہاں ہے؟
آزاد صحافت کے اصولوں کے مطابق تنقید، سوالات اور اختلاف رائے ہر جمہوری معاشرے کی بنیاد ہیں۔ غلام اللہ اعوان کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا پورا حق حاصل ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ کسی تحریک یا ادارے پر الزامات عائد کرتے وقت ثبوت، سیاق و سباق، اور شفافیت کو مدنظر رکھا جائے۔
جب کسی غیر سرکاری عوامی تحریک پر تنقید ہو، تو یہ سوال بھی لازم ہے کہ آیا تنقید میں اصلاح کی نیت ہے یا تخریب کی؟
بین الاقوامی تناظر: متنازعہ خطے میں بیانیے کی جنگ
کشمیر جیسے متنازعہ خطے میں بیانیہ صرف مقامی مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ بین الاقوامی طاقتیں، ریاستی ادارے اور میڈیا پلیٹ فارمز اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک تنازع شدہ خطہ ہے جہاں کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جانا ابھی باقی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بھی بیانیہ، خواہ وہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں، مقامی آوازوں کو خاموش کرنے یا تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے اثرات نہ صرف مقامی سیاست بلکہ عالمی نقطہ نظر پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
غلام اللہ اعوان کی شخصیت، تنقید اور بیانیہ یقیناً اہم ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ آیا وہ ایک آزاد آواز ہیں یا کسی پراکسی بیانیے کا حصہ، صرف وقت اور مزید شفافیت ہی بتا سکتی ہے۔
دی آزادی ٹائمز آزاد، خود مختار اور کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا حامی ادارہ ہے جو آزادیِ اظہار اور جوابدہی دونوں کو ضروری سمجھتا ہے۔ ہم ایسے تمام معاملات پر تحقیقاتی صحافت کے اصولوں پر مبنی رپورٹنگ کو فروغ دیتے رہیں گے، تاکہ حقائق عوام کے سامنے آئیں — نہ کہ افواہیں۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں
اپنی کہانی بھیجیں
اپنی آواز دی آزادی ٹائمز کے ساتھ بلند کریں

