شام کے صدر بشار الاسد اور ان کے خاندان کے مالی معاملات ہمیشہ سے ایک معمہ رہے ہیں۔ مختلف ذرائع سے جمع کی گئی دولت نے اس خاندان کو نہ صرف شام کی سب سے طاقتور بلکہ دنیا کے چند امیر ترین خاندانوں میں شامل کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں ہم بشار الاسد کے مالی اثاثوں اور ان کے ذرائع پر نظر ڈالیں گے، جو قانونی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے جمع کی گئی دولت پر روشنی ڈالتی ہے۔
بشار الاسد اور ان کے خاندان کی دولت
سعودی اخبار “الوف” کے مطابق، برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی 6 کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بشار الاسد کے خاندان کے پاس تقریباً 200 ٹن سونا، 16 ارب ڈالر اور 5 ارب یورو کے اثاثے ہیں۔ یہ رقم شام کے سات سال کے قومی بجٹ کے برابر ہے۔ تاہم، اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، بشار الاسد، ان کی اہلیہ اسماء الاسد، ان کے بھائی ماہر الاسد، بہن بشریٰ الاسد، اور دیگر رشتہ داروں کی مجموعی دولت کا تخمینہ 1 سے 2 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ یہ تخمینہ کھلے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے اور اس میں الاسد کے بچوں حفیظ، زین اور کریم کی دولت شامل نہیں ہے، جو 2024 تک بالغ ہو چکے ہیں۔
قانونی اور غیر قانونی ذرائع
بشار الاسد کے خاندان پر الزام ہے کہ وہ منی لانڈرنگ، اسلحہ کی تجارت، منشیات کی اسمگلنگ، اور بھتہ خوری جیسے غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہیں۔ یہ غیر قانونی دولت مختلف قانونی کاروباری ڈھانچوں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے ذریعے سفید کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، الاسد خاندان ایک پیچیدہ کاروباری نظام چلاتا ہے، جس میں شیل کمپنیاں اور جعلی نام استعمال ہوتے ہیں۔ یہ نظام انہیں مالی وسائل تک رسائی فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
شالیش خاندان اور رامی مخلوف
الاسد خاندان کے پدری کزن، ذو الہِمہ شالیش اور ریاض شالیش، تعمیراتی اور گاڑیوں کی درآمدی شعبوں میں وسیع کاروباری مفادات رکھتے ہیں اور ان کی دولت کا تخمینہ 1 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
رامی مخلوف، جو بشار الاسد کے ماموں زاد بھائی ہیں، شام کی معیشت کا ایک بڑا حصہ کنٹرول کرتے تھے۔ 2020 میں بشار الاسد سے تنازع کے بعد ان کی کئی کاروباری ملکیتیں حکومت کے قبضے میں چلی گئیں، جن کی مالیت تقریباً 5 سے 10 ارب ڈالر تھی۔
شام کا بحران اور الاسد کی ممکنہ جلاوطنی
بشار الاسد کی حکومت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے، اور اطلاعات کے مطابق دمشق میں اسلامی جنگجو گروہوں نے پیش قدمی کی ہے۔ ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ بشار الاسد ایران منتقل ہو گئے ہیں۔ اگر بشار الاسد کو ملک چھوڑنا پڑے، تو کیا وہ بھی افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی طرح پیسے سے بھری گاڑی لے کر فرار ہوں گے؟
شام کے صدر بشار الاسد اور ان کا خاندان شام کے معاشی اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس میں گہرے طور پر شامل ہیں۔ ان کی دولت کے ذرائع اور حجم پر بحث جاری ہے، مگر یہ واضح ہے کہ اس خاندان نے قانونی اور غیر قانونی ذرائع سے اپنی طاقت کو مضبوط کیا ہے۔ شام کے موجودہ حالات میں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ دولت اس بحران میں کس حد تک ان کے کام آتی ہے۔
📢 ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں تازہ ترین خبریں اور اپڈیٹس کے لیے: یہاں کلک کریں